Sunday, August 14, 2011

سانحہ ہنزہ اور جشن آزادی

وادی ہنزہ کے علاقے علی آباد میں اس روز بارش ہورہی تھی. سربز وادی باران رحمت کی مہک میں جھوم رہا تھا . گھنے بادل وادی میں زینہ زینہ اتر رہے تھے، گویا آسمانوں سے بیزار ہو کر  اس جنت نظیر خطے کی خاک کو چومنا چاہ رہے ہوں٠  

ہنزہ کے سارے مکین اپنے کاموں میں مگن تھے، ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کچھ لمحے بعد ان کے پر امن علاقے کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ ہونے جارہا ہے٠ 

دریاۓ ہنزہ کی بندش سے وجود میں آنے والی جھیل کے کچھ متاثرین ایک مقامی بینک کے سامنے کھڑے تھے، وہ اپنے اکاونٹ سے پیسے نکال کر زندگی کی کچھ بنیادی ضروریات پوری کرنا چاہتے تھے.  ان متاثرین میں وادی گوجال کے گاؤں آئین آباد کا شیر اللہ بیگ اور اس کا جوانسال بیٹا، شیر افضل، بھی شامل تھے٠ 

بینک کے عملے نے متاثرین کو بتایا کہ ان کے اکاونٹ میں  حکومت کی طرف سے  ابھی پیسے نہیں آئے ہیں اس لیے وہ ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں٠پریشان حال متاثرین بینک کی عمارت کے باہر نکلے اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک احتجاجی مظاہرہ کریں گے.

 یہ بے گھر، لیکن معزز لوگ،  عطاءآباد کے مقام پر آنے والی قدرتی آفت کی وجہ سے بننے والی جھیل کی زد میں آکر اپنے زمینوں اور گھروں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور ہزاروں حکومتی وعدوں کے باوجود اپنی زندگی کو دوبارہ سے شروع نہیں کر پارہے تھے. ١٨ مہینوں تک خیموں اور کراۓ کے مکانوں میں زندگی گزارنے والے لوگوں نے جب سنا کہ اس بد نصب دن ان کے علاقے کے منتخب  وزیر اعلی ہنزہ نگر کا دورہ کرنے والے ہیں تو انہوں نے  فیصلہ کیا کہ وہ اپنے رہنما تک اپنی مشکلات پہنچانے کے لیے جمہوری طریقے سے پر امن احتجاج کریں گے. 

انہوں نے علی آباد کے بیچ میں سے گزرنے والے شاہراہ قراقرم پر دھرنا دینے کا فیصلہ کر لیا ، اور سڑک کے بیچ میں کھڑے ہو کر اپنے جائز مطالبات کے حق میں نعرہ بازی شروع کردی. نعرے کیا تھے، بے بسی اور لاچاری کا اظہار تھا. وفاقی حکومت کی طرف سے دیے جانے والے فنڈ کی جلدی سے منتقلی، بہتر سفری سہولتوں کی فراہمی، اٹھارہ مہینوں سے قائم جھیل سے پانی کا اخراج، بچوں اور بچیوں کی تعلیمی خرچ کے لیے مختص فنڈز کی منتقلی اور صحت کی بہتر سہولیات.  

پولیس کے ایک مقامی افسر کو ان متاثرین کی یہ جسارت ناگوار گزری، اور اس نے اپنے ماتحت عملے کو حکم دیا کہ وزیر اعلی کی آمد کے موقعے پر روڈ کو خالی رکھا جاۓ ، اور متاثرین کو ہٹا دیا جاۓ. 

مجبور اور حکومتی بے حسی سے بیزار متاثرین نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا. وہ کسی بھی صورت میں اپنی گزارشات گلگت بلتستان کے منتخب وزیر اعلی تک 
پہنچانا چاہتے ہیں٠  

. بشکریہ  اکرام نجمی ...مظاہرین پر لاٹھی چارج کی تصویر  

دوسری طرف پولیس کے اہلکار اور افسران بھی ان مظاہرین کو وزیر اعلی کے راستے سے ہٹانے پر بضد تھے.

الغرض، پولیس نے انگریز دور کی یاد گار، لاٹھی چارج، کا مظاہرہ کیا اور مظاہرین پر آنسو گیس پھینکے.   متاثرین کو حیرت تھی کہ آخر ان پر ڈنڈے کیوں برساۓ جارہے ہیں؟ ان کا جرم کیا ہے؟ کیا اپنا حق مانگنا جرم ہے؟ کیا حکومتی نا اہلیوں کے خلاف احتجاج کرنا غیر قانونی ہے؟ 

  پولیس کے ڈنڈے پڑے تو مظاہرین بھی اشتعال میں آئے اور چند جذباتی نوجوانوں نے  پولیس کے اہلکاروں پر پتھراو شروع کیا.  ایک پتھر ڈی ایس پی صاحب کے ماتھے پر لگا، اور ان کے چہرے سے خون بہنے لگا. 

بس، پھر کیا تھا، جلیونوالہ باغ کے منحوس مرکزی کردار جنرل ڈائر کی طرز پر اس پولیس آفیسر نے نہتے مظاہرین پر فائرنگ کا آرڈر دیا. انگلی ٹریگر پر ، گولیاں باہر، اور وادی ہنزہ کی پرامن فضاء بارود کی مکروہ بدبو سے بھر گیا. خون کے فوارے پھوٹ پڑے. گولیوں کی آوازیں تھم گئیں تو لوگوں نے دکھا کہ چار افراد زمین پر پڑے کراہ رہے تھے.  

پچاس سالہ شیر الللہ بیگ اور اس کا ٢٢ سالہ بیٹا شیر افضل، دونوں، زمین پر گرے ہوے تھے، اور ان کے جسم سے خون بہتا ہوا ہنزہ کی سرزمین کو داغدار کر رہاتھا.

 بارش کی بے رنگ بوندیں اس روز زمین پر گریں تو ان کا رنگ  لال تھا. 

 علی آباد کے بازار میں موجود لوگوں نے سکتے کے عالم میں یہ منظر دکھا، مدد کو پہنچے اور زخمیوں کو قریبی ہسپتال تک پہنچایا جہاں شیر اللہ بیگ نے اپنی  زندگی کی آخری سانسیں لیں. شیر اللہ کے قتل کی خبر سن کر لوگ مشتعل ہو گیے اور سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہو کر   پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج شروع کیا.  پولیس نے ان کوبھی طاقت دکھانے کی کوشش کی تو عوام بپھر گیے اور پھر کوئی سرکاری عمارت بچا نہ اس علاقے میں سرکار کی  عزت.  

 بد قسمتی سے  گراو جلاو کا یہ سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا   لیکن حکومت اور انتظامیہ  کے ذمہ دار افراد یا تو وزیر اعلی صاحب کی پروٹوکول ڈیوٹی میں لگے رہے، یاپھر گدھے کے سر سے سنگ کی طرح منظر سے غائب رہے. ان مشتعل مظاہرین کو روکنے والا کوئی نہیں ملا اور تباہی و بربادی کا ایک افسوسناک سلسلہ شروع ہو گیا.   

پرتشدد احتجاج کا سلسلہ ناصر آباد سے سے سوست اور گلمت تک پھیل گیا اور ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے.  

گلمت میں مقامی سماجی رہنماؤں نے پولیس کے نوجوانوں کو پناہ دی اور ان کو مشتعل ہجوم کے غیض و غضب کا ںشانہ بننے سے بچا لیا. انہی رہنماؤں کی وجہ سے گلمت پولیس سٹیشن کی عمارت بھی  جلنے سے بچ گیا.  

تباہی و بربادی کا یہ قابل مذمت سلسلہ شروع ہی نہیں ہونا چاہیے تھا. سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچانے سے علاقے کے کونسے مسائل حل ہوے یا متاثرین کے کونسے مطالبات پورے ہوے؟  ہمیں اپنے نوجوانوں اور بچوں کو یہ تربیت دینی چاہیے کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کر ہم کوئی کار خیر نہیں کر رہے بلکہ کاغذات وغیرہ کو تباہ کر کے بہت سارے افراد  کے مسائل میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں. تشدد کا راستہ ہمیشہ غلط ہوتا ہے. بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوے قانون کو اسکا کام کرنے دیا جانے چاہیے تھا.

 کاش تباہی کا یہ طوفان نہیں آتا... کاش 

 گلگت شہر میں بھی ہزاروں لوگوں نے پولیس کی اس بزدلانہ فعل کے خلاف زبردست پر امن  احتجاج کیا اور مجرموں کی سرکوبی کا مطالبہ  کیا٠ 

 اسلام آباد، گاہکوچ، گلگت، کراچی، لاہور اور ملک کے دوسرے علاقوں میں گلگت بلتستان کے عوام سڑکوں پر نکل آئے اور حکومتی نااہلی کے خلاف یکجا ہو کر زبردست احتجاج کیا.   یہ مظاہرے ابھی جاری ہیں اور ایسے آثار نظر آرہے ہیں کہ  پر امن مظاہروں کا یہ سلسلہ آیندہ بھی جاری رہے گا٠  

مظاہرین کو چاہیے کہ وہ اپنے مطالبات کو وسعت دیتے ہوے پولیس کی بہتر تربیت اور پولیسنگ نظام میں اصللاحات کا تقاضا بھی کرے. صرف تنخواہیں بڑھانے سے شاید قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مسائل حل نہیں ہو سکیں گے.  

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ خونیں واقعہ پاکستان کی یوم آزادی سے ٣ دن پہلے رونما ہوا، اور ابھی عوامی غم و غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا ہے...  یقینا اسی وجہ سے آزادی کا رنگ بھی پھیکا سا لگ رہا ہے....  حکومت نے ہنزہ میں  دفعہ ١٤٤ نافذ کر کے گویا اس بات کا پورا اہتمام کر لیا کہ علاقے میں ملکی آزادی کا جشن نہیں منایا جائیگا. ایسا ہنزہ کی جدید تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے، اور ہم سب کو اپنے آپ سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے کہ حالات اس نہج تک کیوں پہنچے؟

حکومت کی طرف سے  واقعے کی عدالتی تحقیقات کا فیصلہ خوشآئند ہے لیکن یاد رہے کہ اگر انصاف نہیں کیا گیا تو ریاست اور شہریوں کے درمیان  موجود اعتماد کے  رشتے کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے  ، جو کسی کے مفاد میں بھی نہیں.  

ہنزہ کے لوگ پر امن تھے اور انشا اللہ ہمیشہ پرامن ہی رہیں گے. ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے اپنے حدود سے تجاوز نہ کرے اور اس خوبصورت علاقے کو جہنم بنانے والوں کے مکروہ عزائم ناکام بنا کر امن بحال کرنے کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرے اور مقامی افراد اور اداروں کی مدد کرے تاکہ علاقے کے مسائل حل ہو سکے اور لوگ اپنی زندگیوں کی طرف توجہ دے سکے. 

3 comments:

Anonymous نے لکھا ہے کہ

Beautifully sketched and a well balanced analysis, with a cool mind... liked it...:) Aman

Anonymous نے لکھا ہے کہ

اچھا لکھا ہے.اسے جاری رکھو

Anonymous نے لکھا ہے کہ

یہ سب کچھ اگر چشم دید ہے تو درست لیکن سنا ہوا ہے توآدھا سچ ہے۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔