Wednesday, May 18, 2011

جب تشدد تفریح طبع کا سامان بن جاۓ

کچھ تصویریں اور ویڈیوز ایسی ہوتی  ہیں جن کو دیکھنے کے بعد انساں دل ہی دل میں سوچتا ہے کہ کاش میں یہ نہیں دیکھتا. کا ش میںاس لنک پر  کلک نہیں کرتا.

 ایسی تصویریں، میرے کیس میں، عموما تشدد کے بھیانک اور اندوہناک واقعات پر مبنی ہوتے ہیں. 

کل اتفاقا فیس بک پر اسی طرح کا ایک ویڈیو دیکھنے کا تجربہ ہوا. بظاہر تو یہ ویڈیو کسی شادی کے تقریب کی تھی جس میں ایک نوجوان اپنے "فن" کا مظاہرہ کر رہا تھا. لیکن جس طرح کی حرکتوں پر وہ "ناظرین" سے "داد" سمیٹ رہا تھا، وہ انتہائی تکلف دہ ہیں. 

نوجوان ایک مشہور انڈین گانے پر رقص کرتے ہوے خود پر تشدد کرتا ہے . بلکل فلمی انداز میں وہ گانے کے سر اور تال سے ربط پیدا کرتے ہوے اپنے جسم پر ٹیوب لائٹ کے راڈ توڑتا ہے اور فلمی اداکاروں کی طرح کرب اور تکلیف کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے. دھیرے دھیرے یہ نوجوان اپنے منہ سے ٹیوب لائٹ توڑتا ہے اور اس کوشش میں اس کے ہونٹ زخمی ہو جاتے ہیں. نوجوان کا منہ خون سے بھر جاتا ہے اور اسکے سفید انڈرویئر بنیان پر بھی خون کے دھبے لگتے ہیں ، اور اسکا چہرہ انتہائی بھیانک ہو جاتا ہے. اس تمام تکلیف اور غیر انسانی افعال سے بظاہر لاپرواہ نوجوان ہر زخم کے ساتھ کرب کا اور زیادہ شدید مظاہرہ کرتا ہے. 

 انتہائی حیرت کی بات یہ ہے کم از ڈیڑ ھ سو افراد کا ایک مجموعہ اس تمام "فنی مظاہرے " کے دوران تالیاں بجا بجا کر نوجون کو داد دیتا ہے. یہ تمام کاروائی ایک سٹیج کے اوپر ترتیب کے ساتھ مکمل کی جاتی ہیں اور جدید آلات کے زریعے دردناک موسیقی کا بھر پور استعمال کا جاتا ہے. 

سٹیج پر رقاصاؤں کی موجودگی اس بات کی علامت کے طور پر لی جاسکتی ہے کہ غالبا یہ نوجوان بھی کسی "انٹرٹینمنٹ" 
گروہ سے تعلق رکھتا ہو اور شاید یہ سارا عمل چند پیسے کمانے کے لئے پیش کیا جا رہا ہو.

تشویشناک امر یہ بھی ہے کہ اس مجموعے میں بچوں اور نو عمر لڑکوں کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہے . 

جب ملک میں ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے اور دہشتگردی کا عفریت خون انسانی سے روزانہ  ہولی کھیل رہا ہے تو کچھ لوگ شا ید میری حیرت پر حیرانی کا اظہار کرے لیکن میں ان کو یاد دہانی کرانا چاہوں گا کہ یہ کسی سیاسی مذہبی شدت پسند کی تربیت گاہ کا نہیں بلکہ پنجاب کے کسی علاقے کا منظر ہے جس میں بظاہر ہماری طرح کے عام انسان رہتے ہیں. اگر تشدد اور خون ریزی کسی معاشرے میں تفریح طبع کے لئے استعمال ہونے لگے تو یہ کسی خوفناک اجتماعی کمزوری کی طرف اشارہ کرتی ہے جس سے روگردانی کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں. 

ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیئے کہ کیا ہم ایک تشدد سے بھر پور معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں ؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں اس طرح کے رجحانات کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہونگے.  اگر ہم زیادہ کچھ نہیں کر سکے تو کم از کم اس طرح کے پر تشدد ویڈیوز اور تصویروں کو پھیلانے کی بجاۓ ان کے خلاف ایک مہم شروع کرنی چاہیے تاکہ ایک پر امن معاشرے کی تشکیل ممکن ہو سکے. 

عموما یہ دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کی تصویریں اور ویڈیوز فیس بک اور یو ٹیوب کا زریعے نوجوان دوست شیر کر رہے ہوتے ہیں . اگر ہم "لائیک " یا "شیر"  کا بٹن دبانے سے پہلے خود سے سوال کرے اور اپنے ہاتھوں کو روک لے تو تشدد کی روک تھام اور پر امن معاشرے کی امید پیدا ہو سکتی ہے. لیکن زیادہ اہم یہ بات ہے کہ ہم خود بھی اس طرح کی پرتشدد چیزوں کو دیکھنے سے ہر ممکن حد تک اجتناب کرے. 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔