Friday, March 25, 2011

بڑے وزیر کی چھوٹی باتیں



خود نمائی کے یہ اتنے شوقین ہیں کہ اپنی زاتی تشہیر کا کوئی مو قع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے.حکومتی خزانے سے لاکھوں رو پے خرچ کر کے وقت ناوقت اخباروں کی زینت یہ  بنتے رہتے  ہیں اور اس حقیقت کے باوجود کہ ان کے محکمے کے حالات دگرگوں ہیں اور مالی بد عنوانیوں کے دسویں الزامات ان پر لگائے جاتے ہیں، موصوف  ڈھٹائی سے اپنی سینیر وزارت کی نام نہاد کرسی سے چمٹے ہوے ہیں. اس پر مستزاد یہ کہ چند سرکاری ملازمین کی وکالت کو منصبی فریضہ سمجھتے ہوے اپنے سیاسی کیریر کو بھی داو پر لگانے کے لیے تیار ہیں.

ان کے حوالے سے اسلام آباد کے صحافی حلقوں میں کافی سارے لطیفے گردش میں ہیں. وفاقی دارالحکومت کے ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبا کے ایک وفد سے باتیں کرتے ہوے وزیر  موصوف نے کھلے بندوں کہا تھا کہ انہوں نے الیکشن "پیسے خرچ کر کے" جیتا تھا اور کسی نے ان پر احسان نہیں کیا. یقینا وزیر موصوف ایسی بات کر کے  اپنے مال بناو مہم کے لیے جواز پیدا کرنے کی کو شش کر رہے تھے.

ایک اور موقعے پر گلگت میں ایک خوبرو وفاقی نمایندے کے سامنے ان کی "زبان پھسلی" اور انہوں نے قدرتی آفت کے شکار ایک پوری کمیونٹی کو نہ صرف ناشکر کہا بلکہ مفتیوں کے مخصوص ٹولے کا لبادہ اوڑھتے ہو ے  ان پر کفر کا فتوی بھی لگایا.
 یہ الگ بات ہے کہ شاہ کے مشیر نے وزیر موصوف کو جھاڑ پلائی اور ان کو ہوش میں رہ کر باتیں کرنے کا صائب مشورہ دیا.  
 موقعے پر موجود افراد نے انتہائی کرب سے ان قابل نفرت جملوں کو سنا اور برداشت کیا. بعد میں، بھلا ہو واقفان حال کا جنہوں نے وزیر کی جان خلاصی کروا دی ورنہ یار لوگ تو دما دم مست قلندر کا میلہ لگانے کے لیے نہ صرف تیار تھے بلکہ وفاقی دارلحکومت میں تو دنگل سجانے کی کافی کوششیں  بھی کی گئی تھیں، لیکن بڑوں نےعین اسلامی قوانین کے مطابق عفو اور درگزر کا درس دیا اور یار لوگوں نے خود پر قابو پا لیا.

اب موصوف نے شاہوں کے لیے اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کی ایسی بھونڈی کوشش کی ہے کہ دل کرتا ہے ان کے شان میں قصیدے لکھے جاۓ تاکہ موصوف نہال ہو جاۓ. انہوں کے ایک قوم پرست رہنما کو گلگت شہر میں حالات کی خرابی کا ذمہ دار گردانتے ہوے اپنی حکومت کی نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کی مذموم کو شش کرتے ہو ے امن و امان قائم کرنے کی حکومتی ذمہ داریوں سے بریت کا اعلان کیا.
 وزیر موصوف، اور ان کے احباب، یہ بتانے سے البتہ  قاصر تھے کہ اگر ١٩٨٨ سے لے کر آج تک رونما ہونے والے واقعات کے ذمہ دار نواز خان ناجی ہیں اور اگر اس حوالے سے حکومت کے پاس ثبوت موجود ہیں تو کس مصلحت کے تحت ان کو گرفتار کر کے قانون کے مطابققرار واقعی سزا  نہیں دی جا رہ؟

الزام لگایا ہے تو ثابت بھی کرنا ہوگا ورنہ وزیر موصوف نہ صرف اپنی ذات ، بلکہ اپنے سینئیر عہدے کی تضحیک کے بھی مرتکب ہوں گے اور اس صورتحال میں آپ بےشرمی سے وزیر تو رہ سکتے ہیں لیکن وزات کے اہل نہیں. 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔