Wednesday, April 23, 2014

علم، کتابیں اور ادبی سرقہ

۲۳ اپریل ۱۶۱۶ (سولہ سو سولہ) کو انگریزی زبان کے بہت بڑے شاعر، ادیب، ڈرامہ نگار اور مفکر، ولیم شیکسپیر وفات پاگئے تھے۔ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے اور اپنی ذہات اور زباندانی کے سبب اپنی زندگی میں ہی شہرہ آفاق کامیابیاں حاصل کرچکے تھے اور ان کے جانے کے پانچ صدی بعد بھی ان کی شہرت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ آج بھی علما، مفکرین، فنون کے دلدادے اور تخلیقی کاموں میں سرگرم افراد کسی نہ کسی حوالے اس شیکسپیر کی شاعری، انکے جملوں اور ڈراموں میں استعمال ہونے والوں مکالموں سے مستفیذ ہوتے ہیں۔ ان کی یوم وفات کو دنیا بھر میں یومِِ کتب کے طور پر منایا جاتاہے۔

کتاب کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد کتابوں کی صنعت میں زبردست ترقی دیکھی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے پور ی دنیا میں کتابوں کی صنعت پھیل گئی ہے۔ ہر روز ہزاروں کتابیں مختلف مضامین پر دنیا کے ہر کونے میں شائع ہوتے ہیں ۔ ہر سال شائع ہونے والی ان کتابوں میں سے بہت سارے عالمی سطح پر مشہور بھی ہوجاتے ہی۔ بعض کتابوں کی لاکھوں کاپیاں بک جاتی ہیں اور مصنفین بہت ہی کم مدت میں مالا مال ہو جاتے ہیں۔ کاغذ پر پرنٹ ہونے والی کتابوں نے اب ترقی یافتہ معاشروں میں الیکٹرونک بکس یا پھر ای بُک کی شکل اختیار کی ہے۔ جہاں پہلے لوگ ضخیم کتابیں لئے پھرتے تھے یا کتابوں کی ورق گردانی میں مصروف نظر آتے تھے وہیں اب لاکھوں افراد کاغذی کتابوں کی بجائے ڈیجیٹل کتابیں پڑھ رہے ہیں ۔ ڈیجیٹل کتابیں نسبتا سستی بھی ہوتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ کیونکہ انکو شائع کرنے کے لئے کاغذ کی ضرورت نہیں ہوتی اسلئے لاکھوں درختوں کی کٹائی کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔

اس زمانے میں معلومات اور علم کی فراوانی ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ علم کی فراوانی کے باوجود اہلِ دانش کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے، لیکن یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ معلومات کا سیلِ رواں ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہر روز کسی نئے سماجی، سیاسی، سائنسی یا معاشی نکتے کے کسی پوشیدہ پہلو سے پردہ اُٹھا یا جارہا ہے ۔ لیکن یاد رہے کہ اس معلومات کے سمندر میں غوطہ خوری کر کے عقل و دانش کا گہر نکالنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک زمانہ ہوتا تھا کہ ایک شخص بیک وقت فلسفی بھی ہوتا تھا اور علوم سماجیات کا ماہر بھی، ریاضی پر بھی قابلِ رشک دسترس رکھتا تھا اورفلکیات کے علاوہ علم الکلام کے میدان میں بھی اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑ رہا ہوتا تھا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اُن زمانوں میں کسی بھی مضمون کے حوالے سے معلومات کا ذخیرہ اتنا نہیں تھا۔ محدود معلومات کے دور میں تمام علوم کی شدبد رکھنا اور بہت ساروں پر مہارت حاصل کرنا نسبتا آسان تھا۔

آج یہ ممکن نہیں ہے۔

اب ہر مضمون کے بارے میں علم اور معلومات کا پھیلاو اتنا ہو چکا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایک مضمون کے مخصوص حصے کے بارے میں ہی سب کچھ جان لے تو بڑا معرکہ سر ہوجائے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ پرانے زمانوں میں فن جراحی کا ماہر تقریبا ہر قسم کے آپریشنز کرتا تھا۔ اب آنکھوں کے مخصوص جراح ہیں اور ان جراحوں میں بھی سپیشلائزیشن کی وجہ سے کچھ ڈاکٹر پوری آنکھ کے ماہر نہیں ہوتے بلکہ آنکھ کے کسی خاص پرزے کی جراحی میں مہارت رکھتے ہیں۔ جیسے کہ میں کراچی کے ایک مشہور سرجن کو جانتا ہوں جو صرف ریٹینا (آنکھ کے ایک اہم پرزے ) کی جراحی اور علاج میں مہارت رکھتے ہیں۔ اسی طرح کی سپیشلائزیشن دوسرے شعبوں اور مضامین میں بھی دیکھا جارہا ہے۔ کچھ مصنف کرکٹ کے ماہرین ہیں اور کچھ دہشتگردی کے، عمومی فنون حرب کے متعلق لکھنے والے ماہرین الگ ہیں اور گوریلا وار کے ماہرین اور مصنفین علیحدہ۔ اسی طرح کی سپیشلائزیشن مذہبی، سماجی، معاشرتی اور معاشی مضامین میں بھی دیکھی جارہی ہے۔ اس سپیشلائزیشن کی وجہ یہ ہے کہ ہر مضمون اور اس کے ذیلی مضامین کے حوالے سے بے تحاشا معلومات میسر ہے اور مزید کی تحقیق جاری ہے۔

اس عالمی علمی تناظر میں کچھ مسائل بھی پیدا ہوے ہیں ۔ جہاں لاکھوں لوگ کتابیں لکھ رہے ہیں اور نئی معلومات اکٹھا کر کے کتابی شکل میں چھاپ رہے ہیں وہی لاکھوں لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کے تحقیق سے حاصل شدہ علم ، خیال، تصور یا نظریے کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر اپنے نام سے شائع کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اس علمی سرقے کی وجہ سے مصنفین اور ناشرین کا بے انتہا نقصان ہوتا ہے، کیونکہ ان کی محنت کا معاوضہ او ر جائز کریڈٹ حقیقی تخلیق کاروں کو نہیں ملتا۔ اسی مسلے کے پیش نظر عالمی سطح پر قوانین بنائے گئے ہیں جو مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے رائج العمل ہے۔ ان قوانین کے تحت مصنفین اور ناشرین کے جملہ حقوق قانونی طور پر محفوظ کیے جاتے ہیں تاکہ کوئی اور ان کے تخلیقی کام کو اپنے نام سے استعمال نہیں کر سکے۔ اس سے نہ صرف مصنفین اور ناشرین کو مالی تحفظ ملتا ہے بلکہ وہ علمی، ادبی و فکری سرقہ میں ملوث افراد کیخلاف قانونی چارہ جوئی بھی کرسکتے ہیں۔ ان قوانین کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لئے کتاب اور حقوق نسخہ (یعنی کاپی رائٹ) کا دن ایک ساتھ ہی منایا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی کاپی رائٹ ایکٹ موجود ہے ۔ اس کے علاوہ انٹلیکچول پراپرٹی رائٹس آرگنائزیشن آف پاکستان ( آئی پی او ) بھی موجود ہے جو ۲۰۰۵ سے کاپی رائٹ ، پیٹینٹ اور ٹریڈ مارک کے قوانین اور دیگر معاملات کو بہتر بنانے میں مصروف عمل ہے۔ ان قوانین کے تحت ادبی تخلیقات، فنون لطیفہ ، فلم اور ریکارڈنگ کے زمرے میں آنے والی تخلیقات کے مالکانہ حقوق حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک میں علمی اور ادبی سرقہ اپنے زوروں پر ہے۔ مختلف شہری مراکز میں چھاپہ خانے دھڑا دھڑ غیر ملکی مصنفین کی نصابی و غیر نصابی کتابیں چھاپنے میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ یہی سرقہ شدہ کاپیاں بازار میں انتہائی سستے داموں کھلے عام بیچے جاتے ہیں ، اور ہم جیسے کم آمدنی کے ستائے افراد ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ یہ عمل اخلاقی اور قانونی لحاظ سے بہت برا ہے لیکن قانون کی گرفت نہ ہونے کی وجہ سے یہ دھندا زوروں پر ہے۔ کتابوں کے علاوہ ڈیجیٹل مواد کی نقالی بھی زور و شور سے جاری ہے ۔

تاہم، یہ بھی یاد رہے کہ یہ مسلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ دنیا بھر میں ، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، علمی ، ادبی اور فکری سرقہ بازی زوروں پر ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ کم آمدنی والے افراد مہنگی کتابوں کو خرید نہیں سکتے اور اگر وہ سرقہ شدہ کتابیں استعمال نہ کرے تو معلومات کے اس وسیع و عریض سمند ر میں وہآمدنی کی کمی کی وجہ سے محروم رہ سکتے ہیں۔ ملکی اور عالمی پالیسی سازوں کو چاہیے کہ اس علمی سرقے کے رجحان کو کم کرنے کے لئے قانون سازی کے علاوہ ایسے منصوبوں پر بھی غور کرے جن کے ذریعے کم آمدنی اور غریب طبقے کی معلومات کے اس سمندر تک رسائی کو ممکن بنایا جاسکے۔ ورنہ محرومیوں کے مارے طبقے اسی طرح غیر قانونی طور پر شائع شدہ کتابیں پڑھتے رہیں گے۔ اگر ملک میں لائبریریوں کا ایک موثر نظام موجود ہوتو کسی حد تک کتابوں اور معلومات تک رسائی کے مسلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہر محلے، گاوں ، قصبے اور شہر میں لائبریریاں قائم ہو جائے تو شائد لوگوں کو غیر قانونی کتابیں خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ صنعتی دنیا کے تمام ممالک میں سکولوں، محلوں اور قصبوں میں شاندار لائبریریاں موجود ہیں جن سے روزانہ کروڑوں افراد استعفادہ کرتے ہیں ۔ شائد اسی لیے ان صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک نے کسی حد تک کاپی رائٹ کے مسلے کو اپنے جغرافیائی حدود میں حل کرلیا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔