Monday, April 11, 2011

عارفانہ تغافل



روزنامہ باد شمال میں  تحریر شدہ ایک رپورٹ نظروں سے گزرا جس میں ایک کالم نگار و خبر نگار نے ایک احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیےان کے بقول   "مذہبی پلیٹ فارم کے استعمال " پر  تلملاتے ہوے ہزاروں طلبا کے مستقبل کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار ایک اخباری رپورٹ کی شکل میں کیا ہے . موصوف ایک کالم نگار ہیں لیکن کبھی کبھار خبریں بھی لکھتے ہیں. اب ایسے میں اگر خبر کی شکل بگڑ کر ذاتی خیال بن جاۓ تو قلم کی روانی کو تو داد دی جاسکتی ہے لیکن صحافتی تقاضے کسی صورت پورے نہیں ہوتے .

حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ان صاحب کے اپنے حلقے میں منبر رسول کو الیکشن میں امیدواروں کے انتخاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو ان  کے ضمیر شر یف پر کسی قسم کا بوجھ نہیں پڑتا اور ان کا قلم صممم بکمم کی زندہ مثال بنے چپ کی نظر نہ آنے والی سیاہی سے شاید کچھ نہ کچھ لکھ بھی لیتا ہو  لیکن یہ "تحریریں" نظروں سے بہرحال اوجھل رہتی ہیں.

بات یہ نہیں کہ دوسرے کیا زیادتی کر رہے ہیں. ظلم کا ساتھ صرف ظالم ہی دے سکتا ہے. انصاف کے خواہاں ہم سب ہیں.  شکایت اگر ہے تو اس بات کی ہے کہ خود  اہل قلم ، مکمل ہوش و حواس میں ہوتے ہوے انصاف اور سچ کی چادر اوڑھے ،  قلم و قرطاس کے ساتھ کس بھیانک زیادتی کا ارتکاب کرتے ہیں.

جس  ادارے کو مشق ستم بنایا جا رہا ہے اس کی خامیاں سینکڑوں ہوسکتی ہیں لیکن خوبیاں بھی لاکھوں سے کم نہیں ہیں. اگر یہ ادارہ اس علاقے میں قدم نہیں رکھتا تویقینا حالات کا منظر کچھ اور ہی ہوتا.

اساتذہ کو احتجاج کا آئینی اور قانونی حق ہے لیکن یہ سوال پوچھنے میں عوام بھی حق بجانب ہیں کہ تمامتر تربیت کے باوجود ان کے طلبا و طالبات کوئی خاص کارنامہ سرانجام کیوں نہیں دے سکتے؟ احتجاج حق ہیں لیکن اپنی ذات پر تنقید بھی فرض ہے تاکہ انصاف کے سارے تقاضے پورے ہو سکے.

ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے اساتذہ کرام اپنی قابلیت ثابت کرنے کے لیے کسی بھی  قسم کے  ٹیسٹ میں شریک ہو نے سے کیوں گھبراتے ہیں؟  کیا وہ اس بات پر راضی ہوں گے کہ ان کی تنخواہوں اور مراعات کو قابلیت اور مہارت کے معیار سے مشروط کر دیا جاۓ؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔