Monday, July 26, 2021

گندھکی، زہر آلود، سوچ

قراقرم ہائے وے سے اُتر کر گھر کی طرف جاتے ہوے ایک چھوٹی سی گلی نُما سڑک تھی، جس کی تعمیر کا واحد مقصد ٹریکٹر کو کھیتوں تک پہنچانا تھا۔ اُن دنوں ذاتی گاڑیاں اور موٹر سائیکلز رکھنے کی سکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہ پتلی سڑک ایک مختصر سی ڈھلوان سے نیچے اترتی تھی۔ ڈھلوان کے اوپری سرے پر سکول سے واپسی کے بعد پہنچ کر میری یہ خواہش جاگ جاتی تھی کہ تیزی سے بھاگتے ہوے، بغیر رُکے، گھر کے اندر داخل ہوجاوں۔

راستے میں ایک چھوٹی سی نہر بہتی تھی، نہر کے قریب پہنچ کر رفتار خودکار انداز میں کم ہوجاتی تھی، کیونکہ نہر کے اوپر سے ٹریکٹر گزارنے کے لئے چھوٹے بڑے پتھر رکھے گئے تھے، جو وقتاً فوقتاً اپنی جگہے سے ہل جاتے تھے۔ رفتار کم نہ کرنے کا مطلب تھا "ٹریفک حادثہ"، یعنی کسی نوکیلی پتھر سے ٹکرا کر منہ کے بل گر جانا، یا پھر پھسل کر نہر میں گرجانا۔ ٹانگوں پر ایسے حادثات کے نشانات بابجا موجود تھے۔ کبھی کبھار ہاتھ اور بازو، حتی کی چہرے، کی جلد بھی چھل جاتی تھی ان حادثات کے باوجود بھی مگر "ٹربوتہ سپیڈ پرواہ نشتہ"، (پشتو جملہ جس کا مطلب غالباً "ٹربو کو سپیڈ کی پرواہ نہیں ہے"، جو میں نے چترال کے وادی لاسپور میں ایک ٹرک کے پیچھے بہت سال پہلے دیکھا تھا) کے مصداق ہم اپنی رفتار کم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔

"تیزابی سوچ"، بشکریہ سارہ شکیل 

خطرات کا زیادہ ادراک نہ تھا۔ معصومیت تھی۔ کھلنڈرا پن تھا۔ اسلئے گرنے پڑنے سے محض آنسو بہتے تھے، ہمت کم نہ ہوتی تھی۔ اب ہم سنجیدہ اور سمجھدار ہوگئے ہیں، آنسو نہ بھی بہے تو ہمت کے بازووں میں لغزش آہی جاتی ہے ۔۔۔۔

گلی کے دائیں طرف ایک کیاری میں پھلوں کے درخت آج بھی ہیں،جن پر ناشپاتی، سیب، چیری اور دیگر میوہ جات لگے ہیں۔ یہاں پہنچ کر ایک 'روایت' یہ بھی تھی کہ اچھل کر گلی کی طرف جھکی ہوئی شاخوں کو چھوا جائے۔ شاخوں کو چھونے سے پتے گر جاتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی میوہ بھی ہاتھ آہی جاتا تھا۔ یہ رسم بھی میکانکی انداز میں ادا ہوجاتا تھا۔

گھر کے دروازے پر پہنچ پر تھوڑی دیر کے لئے رُک جاتا تھا، تاکہ اندر سے آنے والی آوازوں سے اندازہ لگایا جاسکے کہ کوئی مہمان یا گھر کا کوئی بڑا (مرد) تو اندر موجود نہیں۔ مرد اس لئے کہ عورتوں سے ڈرنے کا کوئی خاص رواج نہیں تھا۔ کوئی نامانوس آواز کانوں سے ٹکراتی، یا کسی بڑے کی آواز آتی، تو فوراً مُڑ کر قریب ہی بہنے والے ایک نہر تک جاتا تھا، تاکہ اس کے کنارے بیٹھ کر اپنا پاوں دھویا جاسکے۔ گلیشیر سے نکلنے کے بعد دسویں کلو میٹرز کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود بھی مٹیالا، گدلا، گلیشیائی پانی یخ بستہ ہوتا تھا۔ پاوں اندر ڈالتے ہی جھرجھری سی آجاتی تھی۔

ان دنوں پلاسٹک کے جوتے عام تھے۔ جرابیں پہننے کا رواج بہت کم، بلکہ نہ ہونے کے برابر ، تھا۔ بغیر جرابوں کے ہی جوتے پہن کر سکول جاتے تھے، جس کے باعث پاوں پسینے کی وجہ سے غلیظ اور بدبودار ہوجاتا تھا، بالخصوص گرمیوں کے زمانے میں ۔ اور اگر کسی دن پلاسٹک کے جوتے، جنہیں ہم اپنی زبان میں نہ جانے کیوں "کالوش" کہتے تھے، پہنا ہوتو پھر پاوں کی حالت عجیب سی ہوجاتی تھی۔ نہ صرف پاوں کی سڑانڈ بڑھ جاتی تھی، بلکہ چلتے پھرتے ہوے عجیب و غریب "فحش" سی آوازیں بھی آتی تھیں!

ہم گورنمنٹ بوائز ہائی سکول میں پڑھنے والوں کی اہمیت کچھ خاص نہ تھی، اس لئے ہم اپنے بناو سنگھار پر بھی زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے۔ گاوں میں مقامی افراد کی خواہش اور باہمی اتحاد و ہمت کے طفیل ایک انگریزی میڈیم سکول بن چکا تھا اور چھوٹی عمر کے بچے اُس سکول میں پڑھتے تھے۔ ان کی یونیفارم ہم سے بہتر تھی۔ یعنی ہم کالی شلوارقمیض پہنتے تھے، جبکہ وہ پینٹ شرٹ اور ٹائی لگا کر سکول جاتے تھے۔ ان کی صفائی کا بھی گھروں میں خاص خیال رکھا جاتا تھا، کیونکہ وہ انگریزی پڑھتے تھے! یوں سمجھ لیجئے کہ ایک طبقاتی نظام تھا!

ہم بھی کسی ٹاٹ سکول میں نہیں پڑھتے تھے، بلکہ ہمارے سکول کی عمارت بہت بڑی، جدید اور بہتر تھی، لیکن معاشرتی معیار کی کسوٹی پر ہمارا نمبر صفر کے آس پاس تھا، کیونکہ ہم اردو میڈیم سکول کے طلبہ تھے۔

میرے اپنے چھوٹے بھائی بہن سارے انگریزی سکول جاتے تھے۔ چچازاد بڑا بھائی گلگت میں الازہر سکول کا طالب علم تھا۔ میں واحد اردو سکول جانے والا تھا اپنے گھر میں۔ میری اور میرے بہت سارے ہم عمروں کی اس سکول میں داخلہ نہ لینے کی وجہ محض یہ تھی کہ جب انگریزی سکول تعمیر ہوا، ہم پرائمری پاس کر چکے تھے، جبکہ سکول کی اولین/ شروعاتی جماعتیں دوسری، یا غالباً تیسرے درجے تک تھیں۔

انگریزی سکول کی تعمیر میں ہم سب نے بڑھ چڑھ کر، اپنی اوقات اور بساط کے مطابق، کام کیا تھا۔ کیونکہ یہ درسگاہ گاوں کی امیدوں اور امنگوں کا مظہر تھا۔ اور وقت نے اس جدید درسگاہ کی افادیت ثابت بھی کردی۔

خیر، پاوں دھونےکے بعد گھر کے اندر داخل ہوجاتے تھے۔ بستہ ، جو بسا اوقات کسی پرانے کپڑے کو ری سائیکل کر کے بنایا جاتاتھا، اور جس میں چند پھٹی پُرانی کاپیاں اور مُڑی تُڑی کباتیں بے ترتیبی سے زلف یار کی طرح نہیں، بلکہ مست گدھے کے کیچڑ سے لتھڑے بال کی طرح آپس میں خلط ملط ہوتی تھیں، سلام دُعا کے بعد ایک طرف پھینک کر چکیش (وخی زبان میں)، جسے آپ گھر کا کچن بھی کہہ سکتے ہیں، کا رُخ کرتے تھے۔ اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تو خود ہی جاکر برتنوں کے ڈھکن اُٹھا کر دیکھا کرتے تھے کہ کیا چیز تیار ہے، یا دوسرے الفاظ میں کس چیز پر ہاتھ صاف کیا جاسکتا ہے۔

اگر کوئی موجود ہو، تو بھی ڈھکنیں اُٹھا کر تحقیق کرنا اوراس کے بعد بہ آواز بلند یا کھسرپھسر کے انداز میں بڑی ماں، اماں، دادی سے فرمائشیں کرنا، زیادہ مقدار میں مانگنا، روایات میں شامل تھا۔

جس دن چھموس (خوبانی کا جوس ) ملتی، ہمارے تو وارے نیارے ہوجاتے تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ دو یا تین گلاس چھموس پینے کے بعد پیٹ میں گیس بھر جاتا تھا، جس کے بعد قریب بیٹھنے والوں کو بوجوہ منہ پر ہاتھ رکھ کا ، یا کپڑے سے منہ ڈھانپ کر گزارہ کرنا تھا، یا پھر ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کر دور بھگاتے تھے۔

لسی بھی میری پسندیدہ غزاوں میں شامل تھی۔ خالص نمکین/تُرش لسی کا مزہ ہی کچھ اور ہوتاہے۔ اور اس میں گھر کی خوشبو اور ماں کی مامتا کا رنگ شامل ہو تو پھر اس کی بات ہی الگ ہوتی ہے۔

اب یہاں نیویارک میں لسی کے نام پرایک مشروب ملتی ہے، لیکن اس میں لسییت کوٹ کوٹ کر تو کجا، سرسری انداز میں بھی بھری نہیں ہوتی ہے۔

آپ کہیں گے کہ یہ مضمون لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

بندہ اکیلا ہوتو خیالات آوارہ ہوجاتے ہیں۔ بچپن اور لڑکپن کی ایسی چیزیں بھی یاد آجاتی ہیں جنہیں آپ ماضی میں معمول سمجھ رہے ہوتے ہیں!

تنہائی میں جب آپ کسی کو یادکرتے ہیں، اور دل سے یاد کرتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ یکدم آپ کے پاس پہنچ گیا ہو۔۔۔۔۔۔

یہاں میں لسی یا چھموس کا سوچتا ہوں تو اس اپنائیت کے ساتھ کہ منہ میں چھموس یا لسی کا ذائقہ اصلاً آجاتا ہے۔ کچھ لمحوں کے لئے ہی سہی، یہ یادیں انسان کو ماضی کی طرف لیجاتی ہیں، اور یہ یاد دلاتی ہیں کہ کبھی زندگی آسان تھی۔ پیچیدگیاں کم تھیں۔ محبتیں تھیں۔ خلوص تھا۔ اب ہر چیز کی کمی ہے۔ یا پھر یوں کہیے کہ جواہرکی کمی ہے، اور ظواہر کی بہتات۔

یہ ایک انوکھی قسم کی غربت ہے۔

نہیں معلوم گاوں میں لسی کا ذائقہ وہی ہے یا پھر بدل گیا ہے؟ نہیں معلوم اب چھموس اُسی قدرتی، نامیاتی، انداز میں بنائی جاتی ہے، یا پھر گندھک اور دیگر غیر نامیاتی مرکبات شامل ہوتی ہیں۔

خیر، اگر چھموس اور لسی میں گندھک شامل ہوبھی جائے تو مداوا ہوسکتاہے۔ اُس گندھکی تیزاب کا کیا کیا جائے تو خیال کے نام پر زہرِ زرد کی طرح سماج کے بدن میں سرایت کرنے کے بعد نفرت پھیلانے میں مصروف ہے؟ 

اس تیزابی بدبودار نفرت کو چھموس اور لسی کی طرح پھینکا بھی نہیں جاسکتا، ذائقہ پسند نہ آنے پر! 

- آوارہ خیال


مکمل تحریر >>

Sunday, June 06, 2021

وخی قوم اور زبان


چند روز قبل وخی زبان بولنے والے معزز اور متحرک افراد نے نشاندہی کی ہے کہ احساس پروگرام کے رجسٹریشن فارم میں گلگت بلتستان کی دیگر زبانیں موجود ہیں، لیکن وخی کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس فارم میں شامل نہیں کیا گیاہے، جس کے باعث وخی زبان بولنے والوں کو اپنی زبان کی جگہ دیگر منتخب کرنا پڑتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کی زبانوں کو قومی سطح پر نہ صرف پذیرائی مل رہی ہے بلکہ متعدد اقدامات ایسے بھی اُٹھائے جارہے ہیں جن سے ان قدیم اور منفرد زبانوں کی بقا اور سلامتی میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم، وقتاً فوقتاً ایسی کمزوریاں بھی سامنے آتی ہیں جن سے وخی اور دیگر زبانیں بولنے والوں کی دل شکنی ہوتی ہے اور پیغام یہ ملتا ہے کہ یہ زبانیں شائد اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے، جتی دوسری ہیں۔ یہ تاثر یقیناً مایوسی پھیلا دیتی ہے۔
جہاں گلگت بلتستان کی دیگر خوبصورت اور زرخیز زبانوں کو اس فارم میں شامل کیا گیا ہے وہاں وخی زبان کو شامل کرنے میں کوئی رکاوٹ بظاہر نہیں ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ قومی مردم شماری کے فارم میں گلگت بلتستان کی کوئی بھی زبان شامل نہیں تھی، جس کے باعث پورے علاقے میں مایوسی پھیلی تھی۔
بہت سارے افراد نے سوشل میڈیا اور سیٹیزن پورٹل کے ذریعے اس زیادتی کی نشاندہی کی ہے، اور مدہم سی امید ہے کہ شائد ان آوازوں کو پزیرائی ملے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان محمد خالد خورشید اور وزیر برائے ثقافت راجہ ناصر علی خان سے بھی گزارش ہے کہ سرکاری کاغذات میں وخی سمیت گلگت بلتستان کی تمام زبانوں کو برابری کی بنیاد پر اہمیت دی جائے۔ اس موقعے پرعمومی معلومات کے لئے کچھ ماہ قبل تحریر کردہ مضمون پیش کررہا ہوں، تاکہ ان لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوسکے جو وخی زبان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے ہیں۔
لسانی خاندان:
وخی زبان کا تعلق ہند-یورپی لسانی خاندان کی مشرقی ایرانی شاخ سے ہے۔ تاریخی طور پر وخی دریائے آمو کے گرد آباد قبائل کی زبان رہی ہے۔ جدید تحقیق کی روشنی میں یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ جینیاتی طور پر ابتدائی وخی زبان بولنے والوں کا تعلق سیتھین گروہ کی ذیلی شاخ "ساکا" ، بالخصوص میساگیٹس ( جنوبی ساکا)، سے ہے۔ محققین کے مطابق وخی زبان کا قریب ترین تعلق بعض ساکا زبانوں مثلاً قُمتشیز اور خوتانیز سے ہے۔
لفظ وخی کا مخرج: لفظ وخی "ووخھیک" یا "خھیک" کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے، جس کا مخرج "وخش" ، "واخشو" یا "واکسو" ہے جو دریائے آمو کا قدیم نام رہا ہے۔آمو دریا کو یونانی زبان میں اوکسس بھی کہا گیا ہے۔ وخی زبان بولنے والے خود کو "خھیک" اور اپنی زبان کو "خھیک وور" کہتے ہیں، جس کا لفظی مطلب ہے "خھیک زبان"۔
سیاسی پس منظر:
معروف جرمن محقق ڈاکٹر ہرمین کروٹزمین اپنی کتاب "وخان کواڈرینگل" میں لکھتے ہیں کہ صدیوں تک وخان ایک چھوٹی اور نیم خودمختار ریاست کے طور پر اہمیت کا حامل علاقہ رہا ۔عسکری یا مالی لحاظ سے وخان کوئی بہت طاقتور ریاست نہیں تھی ۔ تاہم وخان کی وادی شاہراہ ریشم کا ایک انتہائی اہم حصہ ہونے کی وجہ سے ایک بین الاقوامی تجارتی گزرگاہ تھی۔ وخان کے حکمران (میر) کی اہم ترین آمدنی وہ ٹیکسز تھے جو وادی سے گزرنے والی تجارتی کاروانوں سے وصول کیا جاتاتھا۔
اس خطے کی قدیم تاریخ کے شواہد آج بھی کچھ انتہائی اہم اور قدیم قلعوں ، جیسے کہ فرشم (ریشم) قلعہ، قلعہ یمچون، یا پھر قلعہ پنج ،کی شکل میں موجود ہیں۔ یمچون قلعے کے بارے میں کہا جاتا ہے اسے تین سو سال قبل مسیح پہلی بار تعمیر کیا گیا تھا، اور اس کی تعمیر کا بنیادی مقصد تجارتی گزرگاہ کو محفوظ رکھنا تھا۔ یمچون قلعے کی باقیات آج بھی وخجیر پاس کے نزدیک ایک پہاڑی پر موجود ہیں۔
وخی زبان پر اپنی پی ایچ ڈی کی تھیسز لکھنے والی محقق جابروسلووا اوبرتلووا نے 2019 میں شائع کردہ کردہ ایک تحقیقی مقالے "وخی زبان میں تاریخ وخان کا مختصر احاطہ کرتے ہوے مختلف ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ وخان سمیت پامیر کی سطح مرتفع میں یونانی افواج کے اثرات اور آثار موجود ہیں۔ بکٹیرین سلطنت کی قرب وجوار کے علاقوں میں موجودگی کے باعث یونانی اثرات کا نظر آنا قرین از قیاس نہیں ہے۔
چین، روس اور برطانوی ہندوستان کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے وخان کی جغرافیائی اہمیت مسلم رہی ہے۔ اس لئے 1873 میں روسی اور برطانوی استعماری قوتوں نے دفاعی و تزویراتی اہمیت کے پیش نظر اس علاقے کو ایک بفر زون بنانے کے معائدے پر دستخط کردیا۔ اگرچہ اس سے قبل بھی پامیر میں واقع چھوٹی بڑی ریاستوں کے درمیان لڑائیاں ہوتی تھیں، مگر برطانوی اور روسی معائدے کے بعد اس خطے کی سیاسی اساس بدل گئی۔ اس نازک سیاسی صورتحال میں جب کابل کے امیر عبدالرحمن خان نے وخان کے ہمسائے میں واقع شغنان کے حکمران میر یوسف علی کو گرفتار کر کے کابل منتقل کردیا، تو وخان کے باشندوں اور حکمرانوں کو خطرے کی گھنٹیاں سنائی دینے لگیں۔
ڈاکٹر ہرمین اپنی کتاب "دی وخان کواڈرینگل" میں لکھتے ہیں کہ ہمسائیگی میں افغانی یلغار کے بعد وخان میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا، کیونکہ وخان ایک چھوٹی ریاست تھی، اور اس کی آبادی بھی چند ہزار نفوس پر مشتمل تھی، جو افغان حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ انہیں خوف تھا کہ وخان پر افغان تسلط کے بعد انہیں غلام بنایا جائےگا، یا زبردستی فوج میں شامل کیا جائے گا، یا پھر کار بیگار کے لئے ان کا استحصال کیا جائے گا۔ انہی حالات کے پیش نظر 1883 میں وخان کے آخری نیم خود مختار حکمران ، میر مردان علی شاہ اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے ہمراہ علاقے کو چھوڑ کر قرب و جوار کی مختلف وادیوں میں پناہ گزین ہو گئے۔
1884 میں برطانوی استعمار کی ایما پر لشکر کشی کے بعد وخان کو افغانستان کا حصہ بنادیا۔ 1895 میں روسی اثر کے تحت وخان کی قدیم ریاست کو دو نیم کرکے دریائے آمو کو سرحد کی حیثیت دی گئی۔ اور یوں وخان کی بچی کچی ریاست کی ہیت مکمل طورپر بدل گئی۔ ان واقعات کے تقریباً سو سال بعد سوویت یونین کی تباہی کے بعد ریاست وخان کا روسی زیر اثر علاقہ تاجکستان کا حصہ بن گیا۔
ریاست کا شیرازہ بکھرنے کے بعد وخی لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد، جو ویسے بھی تعداد میں کم تھے، تتر بتر ہونے کی وجہ سے مرکزیت سے محروم ہوگئے۔ مختلف وادیوں اور سیاسی اکائیوں میں نو آباد ہونے والے وخیوں کے باہمی روابط انتہائی کم یا پھر مکمل مسدود ہوگئے۔ سقوطِ وخان سے پہلے اور اس کے بعد مختلف وادیوں میں پناہ گزین ہونے والے وخی اپنی سیاسی اور سماجی اہمیت کھو بیٹھے، اور ان نئے علاقوں کی سیاسی و ثقافتی حقائق کے پیش نظر بطور اقلیت زندگی گزارنے لگے۔ ان تبدیلیوں کے اثرات وخی بولنے والوں کی معیشت کے ساتھ ساتھ ان کی زبان ومعاشرت پر بھی مرتب ہوے۔ عصر حاضر کی وخی شاعری میں اب بھی خاکِ وخان سے محبت کی عکاسی ہوتی ہے۔ آج بھی "اوخھ وطن" ، "لعلِ بدخشان" اور "امبرِ پامیر" کا ذکر شعر و شاعری میں جابجا نظر آتا ہے۔
اگرچہ وخی بولنے والوں کی تعداد کے بارے میں کوئی مستند اعداد وشمار موجود نہیں ہیں، کیونکہ اس ضمن میں کوئی منظم کوشش آج تک نہیں ہوئی ہے، مگر مختلف اندازوں کے مطابق عصر حاضر میں وخیوں کی کل آبادی زیادہ سے زیادہ 70 ہزار سے ایک لاکھ کے بھگ ہے۔
وخی زبان عصر حاضر میں:
آج کل وخی لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور چین میں آباد ہیں۔ ان چاروں ممالک میں مختلف حکومتی نظام رائج ہیں، اس لئے اقلیتی وخی انہی معاشروں کے رنگ میں رنگتے ہوے اپنی شناخت دھیرے دھیرے کھو رہے ہیں۔ اس شناخت کو برقرار رکھنے میں ادب اور ثقافت کا اہم کردار ہوسکتاہے، مگر ادبی کوششیں انتہائی ناکافی ہیں، اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وخی زبان کی آج تک کوئی رسم الخط مرتب نہیں ہوئی ہے۔ اس وقت تاجکستان میں مقیم وخی بولنے والے روسی رسم الخط استعمال کرتے ہیں۔ افغانستان میں غیر رسمی طور پر وخی تحاریر کے لئے عربی رسم الخط مستعمل ہے۔ چین میں عربی اور چینی رسم الخط غیر رسمی طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں لاطینی-یونانی، انگلیسی اور عربی رسم الخط مستعمل ہیں ۔ ان ممالک کی سیاسی اور ثقافتی ترجیحات اور حقائق مختلف ہونے کی وجہ سے وخی زبان بولنے والے ایک دوسرے سے کٹے ہوے ہیں۔ اسی لئے آج تک وخی زبان کی کوئی مشترکہ رسم الخط بھی وجود میں نہیں آئی ہے۔
مشترکہ رسم الخطہ نہ ہونے کے باوجود وخی زبان میں تخلیقی کام محدود سطح پر جاری ہے۔ تاجکستان میں وخی زبان کی کئی کتابیں روسی رسم الخط میں مسلسل شائع ہورہی ہیں۔ پاکستان میں 1980 کے دہائی میں کراچی میں زیر تعلیم گوجال ہنزہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے "وخ" نامی کتاب کی اشاعت کی تھی، جس میں عربی رسم الخظ استعمال کرتے ہوے پہلی بار وخی تحاریر کو شائع کیاگیا، اورگرامر کے اصول مرتب کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعد میں کراچی ہی سے "سم سنگ" نامی ایک کتابچے کی اشاعت ہوئی، جس میں لاطینی-یونانی رسم الخط کو استعمال کرتے ہوے وخی تحریریں شائع ہوئیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران لاطیبی/یونانی رسم الخط استعمال کرتےہوے مختلف کتابیں پاکستان میں شائع ہوئی ہیں، جیسے کہ کریم خان ساکا کی شائع کردہ "وخی ایکسپرس"، پامیر میڈیا گروپ کی شائع کردہ "بیاض بلبل"، اور بلبلک سکول کی شائع کردہ منتخب قدیم و جدید شعرا کے کلام کا مختصر مجموعہ۔
وخی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لئے 1990 کی دہائی میں وخی تاجک ثقافتی انجمن (کلچرل ایسوسی ایشن ) کے نام سے پاکستان میں ایک تنظیم وجو د میں آئی جس نے ثقافتی پروگرامز کا آغاز کر کے لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے چین اور پاکستان کے وخی بولنے والوں کے درمیان روابط بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا، جس کا ایک مظہر چینی وخی اور سریقولی فنکاروں کا متعدد بار پاکستان آکر ثقافتی پروگرامز میں شرکت کرنا ہے۔ وخی تاجک کلچرل ایسوسی ایشن ہی کی کوششوں کے باعث ریڈیو گلگت سے وخی زبان میں پروگرام کا آغاز بھی ہوا، جو آج بھی جاری ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران انفرادی اور اجتماعی سطح پر وخی زبان کی رسم الخط وضع کرنے کی کافی ساری کاوشیں ہوئی ہیں۔ ماسٹر حقیقت علی نے لاطینی رسم الخط استعمال کرتے ہوے ایک وخی قاعدے کا اجرا کیا۔ ان کے بعد احمد جامی سخی نے عربی رسم الخط کے ساتھ ایک قاعدہ متعارف کروایا۔ الامین ماڈل سکول گلمت میں لاطینی -یونانی رسم الخط استعمال کرتے ہوے مقامی سطح پر وخی زبان بچوں کو پڑھانے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ دیگر شعرا ، محققین اور ادبا نے بھی اپنی سطح پر ان کاوشوں میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔ چند سال قبل موسیقی اور زبان کی ترویج کے لئے دی گلمت ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفئیر سوسائیٹی نے "بلبلک" کے نام سے ایک ادارہ قائم کر کے ان کوششوں کو ایک نئی جہت دی۔ چند سالوں سے گلگت بلتستان کی حکومت بھی وخی زبان میں ایک قاعدہ شائع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ غرض، وخی زبان و ثقافت کی ترویج و اشاعت کےلئے مختلف پہلووں پر کام ہورہاہے۔
ان تمام کوششوں کے باوجود اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے وخی زبان کو اپنی سرخ کتاب "ریڈ بُک" میں شمار کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جدید نظام تعلیم اور معاشی و معاشرتی دباو کے تحت دھیرے دھیرے وخی بولنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے اور یہ قدیم زبان معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا کی ایجاد نے عالمی سطح پر فاصلے گھٹانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیاہے۔آج فیس بُک، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع ابلاغ پر دنیا بھر کے وخی ایک دوسرے سے روزانہ رابطہ کر رہےہیں۔ ورچوئل دنیا میں شعرو شاعری کے محافل سجائے جارہےہیں، مباحثے ہورہےہیں، مختلف موضوعات پر گفت و شنید ہورہی ہے۔ مختلف ویب سائٹس اور بلاگز بھی اس عمل میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں، جس کی بدولت وخی زبان میں روزانہ ڈیجٹیل مواد نہ صرف تیار ہورہا ہے بلکہ سرحدوں اور فاصلوں کی رکاوٹیں عبور کر کے لوگ تک پہنچ بھی رہا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل قریب میں یہ روابط زیادہ منظم اور زیادہ مفید ثابت ہونگے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی تصویر اور آواز سے مزین دنیا میں رسم الخظ کی اتنی اہمیت نہیں ہے، اس لئے مواد کی تیاری اور ترسیل کا کام مثبت انداز میں ہورہا ہے ۔
تاہم دیرپا روابط ، تعلیم و تدریس اور تحقیق کے لئے ایک مشترکہ، عالمی، رسم الخط کا وجود میں آنا ناگزیر ہے۔ آن لائن فارمز اور دیگر روابط کے دوران انگلیسی/لاطینی رسم الخط اپنانے پر اتفاق ہوتا نظر آرہا ہے، جو مستقبل کے لئے ایک نیک شگون ہے۔ تاجکستان سے تعلق رکھنے والے معروف وخی سکالر ڈاکٹر بوغشو لشکربیکو نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک نشست کے دوران انگلیسی/لاطینی رسم الخط اپنانے کی صلاح دی تھی، جسے اپنانے میں تعلیم یافتہ افراد اور نوجوان سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔ انگلیسی حروف تہجی عالمی سطح پر معروف ہیں، اور وخی بولنے والوں کی نئی نسلیں اس رسم الخط سے پہلے ہی آگاہ ہیں۔ اس لئے انگلیسی رسم الخط کو اپنانا ایک منطقی فیصلہ لگ رہا ہے۔
مستقبل میں وخی زبان کی ترویج و اشاعت کے لئے بین الاقومی کوششوں کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان، چین ، افغانستان اور تاجکستان کی حکومتوں کی مدد کے بغیر چند میلوں کی مسافت پر منقسم وخی قوم کے افراد ایک دوسرے سے گھل مل نہیں سکتے ۔ کیونکہ وخی بولنے والے کسی بھی ملک میں سیاسی طور پر مضبوط نہیں ہیں، اس لئے ان کی آواز یں ، فریادیں اور مطالبات مقتدر حلقوں تک شازونادر ہی پہنچتی ہیں۔ تاہم، وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی راہداریوں کے کھلنےسے بہتری کی امید پیدا ہوسکتی ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں ان ممالک میں آباد وخی بولنے والے اپنی اپنی ریاستوں کا وفادار رہتے ہوے مشترکہ زبان، تاریخ اور ثقافت کی بنیاد پرتعلقات استوار کرتے ہوے باہمی روابط بڑھا سکیں گے۔ ان روابط کے بغیر وخی زبان و ثقافت کی بقا خطرے میں رہے گی۔
یہ مضمون مجلہ "سربلند" میں پہلے شائع ہوئی ہے۔
مکمل تحریر >>

Friday, February 19, 2021

تاریخ وخان کا ایک فراموش باب

سابق ریاست وخان کے صدر مقام "قلعہ پنجہ" کی ایک تصویر 

سر بلند علی شاہ وخان کے آخری حکمران، میر مردان علیشاہ، کا بھائی تھا۔ ڈاکٹر ہرمین کی کتاب "وخان کواڈرینگل" کے مطابق شہزادہ سربلند علیشاہ کی ولادت 1855 میں گلمت میں ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ ان دنوں ہنزہ اور وخان کی ریاست کے درمیان قریبی تعلقات تھے۔ 1839سے 1875 تک وخان پر حکمرانی کرنے والے میر فتح علی شاہ کی ایک بیٹی کی شادی غزن خان اول سے جبکہ دوسری بیٹی، "آسمان پری"، کی شادی میر صفدر علی خان سے ہوئی تھی۔

منشی عبدالرحیم اپنی دستاویز، "سفرِ بدخشان" میں لکھتے ہیں کہ وخان کے حاکم میر فتح علی شاہ کی شادی ہنزہ کی ایک شہزادی (شاہ غضنفر کی بیٹی) سے ہوئی تھی۔ اس قریبی رشتہ داری کے تناظر میں دیکھا جائے تو وخان کے حکمرانوں کی ہنزہ آمد اور یہاں بچے کی ولادت قرین از قیاس نہیں ہے۔

1883 میں سقوط وخان کے بعد سربلند علی شاہ فرار ہو کر سریقول (موجودہ چین) کی طرف نکل گیا۔ انہوں نے تقریباً دس سال مختلف مقامات پر گزارنے کے بعد 1894 میں دفدور (دفدار) نامی جگہے پر وخی بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو منظم کیا اور ایک نئی وخی آبادی کی بنیاد رکھنے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔

شہزادہ سر بلند علیشاہ 1903 میں روسی زیر اثر وخان کے علاقے زونگ پہنچا اور وہاں کی وخی آبادی نے انہیں اپنا رہنما تسلیم کیا۔

1921 میں وہ ریاست وخان کے دارلخلافہ "قلعہ پنچ" واپس پہنچا اور اپنے خاندان کی زمینوں کی نگرانی سنبھالی۔

1931 میں ان کی موت واقع ہوئی۔

زیر نظر تصویر قلعہ پنج/پنجہ کی ہے جو وادی وخان کا مضبوط ترین قلعہ تھا۔


مکمل تحریر >>

Friday, January 22, 2021

کھیت اور کھیل

 فصل اُٹھ جانے کے بعد گاوں کے خالی کھیت اور کھلیان کھیلوں کیمیدان بن جاتے تھے۔ گاوں میں مرکزی پولو گراونڈ (شوارن) موجود ہے مگر وہاں جانے کی بجائے محلوں میں ہی میدان سج جاتے تھے۔ فٹبال کے میچز کھیلے جارہے ہیں تو کسی طرف "لونڈس" کے معرکے سجائے جارہیہیں۔ کرکٹ کے مقابلے بھی مسلسل جاری رہتے تھے۔

ایک کھیل "جنگ" کا بھی کھیلا جاتاتھا۔ کھیتوں کی منڈیریاں اور دیوار مورچے بن جاتے تھے، اور زمین میں آلو زخیرہ کرنے کے لئے کھودے گئے گڑھے بطور خندق استعمال کئے جاتے تھے۔ متحارب گروہ عموماً محلوں کی بنیاد پر منظم ہوتے تھے۔ مثلاً قلعہ بمقابلہ لخش۔ مینگشی بمقابلہ لخش۔ ہم "خورد لخش" والے عموماً مینگشی محلے کی ٹیم کا حصہ بن جاتے تھے، کیونکہ ہم "اقلیتوں" میں شامل تھے۔


جنگ کے اس کھیل میں متحارب گروہ ایک دوسرے پر شولخیک (مٹی کے جمے ہوے تودے/دھیلے) پھنکتے تھے۔ چہرے اور سر پر مارنے کی ممانعت تھی۔ پیٹھ، ٹانگوں، اور پیٹ پر وار کرنا حلال سجمجھا جاتا تھا۔ لیکن کبھی کبھار نشانہ خطا ہو کر چہرے اور سر پر بھی لگ جاتا تھا۔ اور اگر مٹی کے ان سخت دھیلوں کے بیچ میں کوئی پتھر آجائے تو پھر خون بہنا اور جسم کے مختلف حصوں کا سوجھنا بھی معمول میں شامل تھا۔ تاہم، زیادہ اوقات محض چہرے اور کپڑے میلے ہوجاتے تھے۔


بہتی ناکوں کے ساتھ سردی کے موسم میں منہ سے بھاپ نکالتے "فوجی" جوان ایک مورچے سے دوسرے مورچے تک جاتے ہوے ایک دوسرے پر "شولخیک" کی گولہ باری کرتے تھے۔ داد شجاعت دیتے۔ اور "قربانیاں" دیتے۔ "جنگ" کا اختتام بسا اوقات اصلی، دست بدست، لڑائی کی صورت میں ہوتا تھا!


کھلونوں کی کمی تھی۔ گاوں میں گنے چنے بچوں کے پاس ربڑ یا چمڑے کے فٹبال ہوتے تھے۔ جس کا فٹبال ہوتا تھا وہ ایک طرح کا لیڈر بن جاتا تھا۔ کپتان بھی وہی ہوتا، ریفری بھی وہی، اور جج و جلاد بھی وہی۔ فٹبال کے مالک کو ناراض کرنے کا مطلب ہوسکتا تھا کھیل سے محرومی، اسلئے مالک الفٹبال کی خوش آمد کرنا اور ان کے نازو نخرے اُٹھانا مروجہ روایات میں شامل تھا۔


کھلونے اور دیگر "نوادرات" ڈھونڈے کی خاطر ہم لوگ ایک ہوٹل کے کچرے کا رخ کا بھی عموما کرتے تھے۔ وہاں دیگر مال غنیمت کے ساتھ کبھی کبھار سگریٹ کا کوئی ایک آدھ دانہ بھی مل جاتا تھا، جسے چھپ چھپا کر "پینے" کی کامیاب کوشش کے بعد ہم نہال ہوجاتے تھے۔


میں عمر رسیدہ ہوں، اور نہ ہی زیادہ وقت گزرا ہے، مگر اب روایات یکسر بدل گئے ہیں۔ اب وہ گبندے اور گردآلود معصوم کھیل قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ اب "کھیلوں" کے دیگر میدان سجائے جاتے ہیں۔

مکمل تحریر >>