Sunday, June 06, 2021
وخی قوم اور زبان
Friday, February 19, 2021
تاریخ وخان کا ایک فراموش باب
سابق ریاست وخان کے صدر مقام "قلعہ پنجہ" کی ایک تصویر |
سر بلند علی شاہ وخان کے آخری حکمران، میر مردان علیشاہ، کا بھائی تھا۔ ڈاکٹر ہرمین کی کتاب "وخان کواڈرینگل" کے مطابق شہزادہ سربلند علیشاہ کی ولادت 1855 میں گلمت میں ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ ان دنوں ہنزہ اور وخان کی ریاست کے درمیان قریبی تعلقات تھے۔ 1839سے 1875 تک وخان پر حکمرانی کرنے والے میر فتح علی شاہ کی ایک بیٹی کی شادی غزن خان اول سے جبکہ دوسری بیٹی، "آسمان پری"، کی شادی میر صفدر علی خان سے ہوئی تھی۔
منشی عبدالرحیم اپنی دستاویز، "سفرِ بدخشان" میں لکھتے ہیں کہ وخان کے حاکم میر فتح علی شاہ کی شادی ہنزہ کی ایک شہزادی (شاہ غضنفر کی بیٹی) سے ہوئی تھی۔ اس قریبی رشتہ داری کے تناظر میں دیکھا جائے تو وخان کے حکمرانوں کی ہنزہ آمد اور یہاں بچے کی ولادت قرین از قیاس نہیں ہے۔
1883 میں سقوط وخان کے بعد سربلند علی شاہ فرار ہو کر سریقول (موجودہ چین) کی طرف نکل گیا۔ انہوں نے تقریباً دس سال مختلف مقامات پر گزارنے کے بعد 1894 میں دفدور (دفدار) نامی جگہے پر وخی بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو منظم کیا اور ایک نئی وخی آبادی کی بنیاد رکھنے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔
شہزادہ سر بلند علیشاہ 1903 میں روسی زیر اثر وخان کے علاقے زونگ پہنچا اور وہاں کی وخی آبادی نے انہیں اپنا رہنما تسلیم کیا۔
1921 میں وہ ریاست وخان کے دارلخلافہ "قلعہ پنچ" واپس پہنچا اور اپنے خاندان کی زمینوں کی نگرانی سنبھالی۔
1931 میں ان کی موت واقع ہوئی۔
زیر نظر تصویر قلعہ پنج/پنجہ کی ہے جو وادی وخان کا مضبوط ترین قلعہ تھا۔
Friday, January 22, 2021
کھیت اور کھیل
ایک کھیل "جنگ" کا بھی کھیلا جاتاتھا۔ کھیتوں کی منڈیریاں اور دیوار مورچے بن جاتے تھے، اور زمین میں آلو زخیرہ کرنے کے لئے کھودے گئے گڑھے بطور خندق استعمال کئے جاتے تھے۔ متحارب گروہ عموماً محلوں کی بنیاد پر منظم ہوتے تھے۔ مثلاً قلعہ بمقابلہ لخش۔ مینگشی بمقابلہ لخش۔ ہم "خورد لخش" والے عموماً مینگشی محلے کی ٹیم کا حصہ بن جاتے تھے، کیونکہ ہم "اقلیتوں" میں شامل تھے۔
جنگ کے اس کھیل میں متحارب گروہ ایک دوسرے پر شولخیک (مٹی کے جمے ہوے تودے/دھیلے) پھنکتے تھے۔ چہرے اور سر پر مارنے کی ممانعت تھی۔ پیٹھ، ٹانگوں، اور پیٹ پر وار کرنا حلال سجمجھا جاتا تھا۔ لیکن کبھی کبھار نشانہ خطا ہو کر چہرے اور سر پر بھی لگ جاتا تھا۔ اور اگر مٹی کے ان سخت دھیلوں کے بیچ میں کوئی پتھر آجائے تو پھر خون بہنا اور جسم کے مختلف حصوں کا سوجھنا بھی معمول میں شامل تھا۔ تاہم، زیادہ اوقات محض چہرے اور کپڑے میلے ہوجاتے تھے۔
بہتی ناکوں کے ساتھ سردی کے موسم میں منہ سے بھاپ نکالتے "فوجی" جوان ایک مورچے سے دوسرے مورچے تک جاتے ہوے ایک دوسرے پر "شولخیک" کی گولہ باری کرتے تھے۔ داد شجاعت دیتے۔ اور "قربانیاں" دیتے۔ "جنگ" کا اختتام بسا اوقات اصلی، دست بدست، لڑائی کی صورت میں ہوتا تھا!
کھلونوں کی کمی تھی۔ گاوں میں گنے چنے بچوں کے پاس ربڑ یا چمڑے کے فٹبال ہوتے تھے۔ جس کا فٹبال ہوتا تھا وہ ایک طرح کا لیڈر بن جاتا تھا۔ کپتان بھی وہی ہوتا، ریفری بھی وہی، اور جج و جلاد بھی وہی۔ فٹبال کے مالک کو ناراض کرنے کا مطلب ہوسکتا تھا کھیل سے محرومی، اسلئے مالک الفٹبال کی خوش آمد کرنا اور ان کے نازو نخرے اُٹھانا مروجہ روایات میں شامل تھا۔
کھلونے اور دیگر "نوادرات" ڈھونڈے کی خاطر ہم لوگ ایک ہوٹل کے کچرے کا رخ کا بھی عموما کرتے تھے۔ وہاں دیگر مال غنیمت کے ساتھ کبھی کبھار سگریٹ کا کوئی ایک آدھ دانہ بھی مل جاتا تھا، جسے چھپ چھپا کر "پینے" کی کامیاب کوشش کے بعد ہم نہال ہوجاتے تھے۔
میں عمر رسیدہ ہوں، اور نہ ہی زیادہ وقت گزرا ہے، مگر اب روایات یکسر بدل گئے ہیں۔ اب وہ گبندے اور گردآلود معصوم کھیل قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ اب "کھیلوں" کے دیگر میدان سجائے جاتے ہیں۔
Thursday, January 21, 2021
سفید فام نسل پرست کون ہیں؟
سفید فام بالادستی کے حمایتیوں کے ایک احتجاجی مظاہرے کی تصویر، بشکریہ الجزیرہ |
ٹرمپ نواز جتھوں کی واشنگٹن پر چڑھائی کے بعد گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ان الفاظ و تراکیب کو امریکی میڈیا میں تواتر سے دہرایا جارہاہے۔ لیکن یہ الفاظ و تراکیب نامانوس بلکل بھی نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی سیکیورٹی ادارے متعدد بارمختلف رپورٹس کے ذریعے خبردار کرچکے ہیں کہ مقامی سطح پر تیار ہونے والے دہشتگرد اور مسلح نسل پرست امریکی امن عامہ کے لئے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی آئین کے آرٹیکل 2 کے مطابق شہری قانون کے مطابق نہ صرف اپنے پاس ہتھیار رکھ سکتے ہیں بلکہ اجتماعی مقاصد کے لئے عسکری گروہ بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔اسی لئے، بہت ساری ریاستوں میں مسلح ملیشیا موجود ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد سابق فوجیوں اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں میں کام کرنے والوں کی ہے، جو عسکری مقاصد کے لئے تربیت یافتہ ہیں اور دوسروں کو تربیت دے بھی سکتیہیں۔ اس طرح ہزاروں تربیت یافتہ افراد اوردرجنوں مسلح گروہ تقریباً سارے ریاستوں میں موجود ہیں۔ ان گروہوں میں سارے تشدد پسند نہیں ہوتے، بلکہ یہ منظم ہر کر مختلف معاملات میں ریاستی حکومتوں اور انتظامی اداروں کی مدد بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کافی سارے ماضی میں سیاسی مقاصد کے لئے پرتشدد کاروائیوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔ اور ایسے بہت سارے گروہ سابق صدر ٹرمپ کے حمایتی تھے۔
واشنگٹن پر چڑھائی کے بعد ان گروہوں سے تعلق رکھنے والے بہت سارے افراد گرفتار ہوچکے ہیں، لیکن ان کی تعداد ہزاروں میں ہے اور خدشہ یہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ وہ صدر جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کر سکتے ہیں، اسی لئے واشنگٹن میں حلف برداری کی تقریب کے دوران 20 ہزار سے زائد مسلح اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔
دوسرا نکتہ جو صدر جو بائیڈن نے اپنی تقریر میں اُٹھایا وہ "سفید فاموں کی بالادستی " پر یقین رکھنے والے والوں، یعنی وائیٹ سپریمسسٹس سے متعلق تھا۔ ان گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد خود کو دیگر نسلوں، دیگر زبانوں اور تہذیبوں سے اولی اور افضل سمجھتے ہیں، اور دوسروں کو کمتر اور حقیر سمجھتے ہیں۔ ان میں بہت سارے گروہ سیاہ فاموں کی غلامی کو درست سمجھتے ہیں، اور یہ طاقت کے زور پر اپنی بالادستی امریکہ میں موجود دیگر اقوام پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ قانونی و غیر قانونی مہاجرین کے مخالف ہیں، لیکن سارے مہاجرین کے نہیں،بلکہ ان کے جو عموماً ایشیا، براعظم جنوبی امریکہ اور افریقہ سے آتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ مہاجرین کی بدولت امریکہ کی سماجی ہیت بدل رہی ہے، اور بھورے اور کالے، یا چینی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد ان کی جگہ لے کر ان کی طاقت اور ریاست پر گرفت کو کمزور کررہے ہیں۔ یہ امریکہ پر حکمرانی کو سفید فام/گوروں کا حق سمجھتیہیں اور انہیں اس بات پر شدید غصہ ہے کہ ماضی میں براک اوبامہ کی شکل میں ایک سیاہ فام امریکہ کا صدر بنا، اور اب ایک سیاہ فام /جنوبی ایشیائی خاتون، کمالا ہیریس، جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر بنی۔ یہ گروہ بھی سابق ٹرمپ کے حمایتی تھے۔
یہ گروہ ایک لحاظ سے ماضی پرست بھی ہیں، کیونکہ یہ ایک ایسے دورکو دہرانے (واپس لانے) کا خواب دیکھتے ہیں جب سفید فاموں کی بلاشرکتِ "غیر" حکمرانی تھی، اور دوسرے ان کے زیر دست تھے۔ان میں سے بعض کے ہاتھوں میں کنفیڈریٹ جھنڈا بھی دیکھا جاسکتا ہے، جس کا علامتی مطلب یہ ہے کہ وہ ماضی کے نسل پرست اور غلامی کو درست قرار دینے والی ریاستوں کے حامی ہیں۔ان میں سے بہت سارے گروہ جرمنی کے نازی تحریک کی بھی حمایت کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہٹلر نے یہودیوں اور دیگر نسلوں کے ساتھ جو کیا، وہ درست تھا، اور یہ کہ جرمن اور دیگر گورے دیگر نسلوں سے بالاتر ہیں۔
عموماً ان پرتشدد نسل پرست تحریکوں کے حمایتی دور افتادہ، دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور یہ کم تعلیمیافتہ بھی ہوتیہیں، لیکن ان کی سربراہی کرنے والوں میں اعلی تعلیم یافتہ اور مالدار افراد بھی موجود ہیں، جو انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے وقتاً فوقتاً استعمال کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی سول وار تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل غلامی کی حمایت اور مخالفت کرنے والی ریاستوں کے درمیان ہوئی تھی، جس میں غلامی کی مخالف کرنے والے اور غلامی کے خاتمے کی حمایت کرنے والے فتحیا ب ہوے تھے۔ ان کے رہنما ابراہام لنکن تھے جنہوں نے سیاہ فاموں کو آزاد کرنے اور غلامی کو ختم کرنے کا بیڑا اُٹھا یاتھا۔
بعض مبصرین اور محققین صدر ٹرمپ کے معروف انتخابی نعرے "میکنگ امیریکہ گریٹ اگین" یعنی "امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانا" کو بھی اسی تناظر سے دیکھتے ہیں۔ یعنی صدر ٹرمپ امریکہ کو ایسا ملک بنانا چاہتے تھے جہاں سفید فاموں کی مکمل بالادستی ہوگی، اورعنانِ حکومت ان کے ہاتھ میں رہے گی۔ صدر ٹرمپ کی متعدد مسلم ممالک سمیت بعض دیگر ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں، ویزا قوانین میں سختی، مہاجرت کے قوانین کو سخت ترین بنانا، براعظم جنوبی امریکہ سے مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد روکنے کیلئے دیوار تعمیر کرنا اور دیگر بہت سارے اقدامات اُٹھانے کو بھی اسی سلسلے کی کڑیاں سمجھی جاسکتی ہیں۔
واشنگٹن پر چڑھائی اور سینٹ و ایوان نمائندگان کی عمارتوں پر قبضے سے اُبھرنے والی صورتحال پیش نظر سفید فام نسل پرستوں اور مقامی دہشتگردوں (مذہبی یا غیر مذہبی) سے نمٹنے کا عندیہ دے کر صدر جوبائیڈن نے اپنے مستقبل کی ترجیحات کا اعلان کردیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ضمن میں عملی اقدامات کیسے اُٹھائے جاسکتے ہیں۔