Friday, January 22, 2021

کھیت اور کھیل

 فصل اُٹھ جانے کے بعد گاوں کے خالی کھیت اور کھلیان کھیلوں کیمیدان بن جاتے تھے۔ گاوں میں مرکزی پولو گراونڈ (شوارن) موجود ہے مگر وہاں جانے کی بجائے محلوں میں ہی میدان سج جاتے تھے۔ فٹبال کے میچز کھیلے جارہے ہیں تو کسی طرف "لونڈس" کے معرکے سجائے جارہیہیں۔ کرکٹ کے مقابلے بھی مسلسل جاری رہتے تھے۔

ایک کھیل "جنگ" کا بھی کھیلا جاتاتھا۔ کھیتوں کی منڈیریاں اور دیوار مورچے بن جاتے تھے، اور زمین میں آلو زخیرہ کرنے کے لئے کھودے گئے گڑھے بطور خندق استعمال کئے جاتے تھے۔ متحارب گروہ عموماً محلوں کی بنیاد پر منظم ہوتے تھے۔ مثلاً قلعہ بمقابلہ لخش۔ مینگشی بمقابلہ لخش۔ ہم "خورد لخش" والے عموماً مینگشی محلے کی ٹیم کا حصہ بن جاتے تھے، کیونکہ ہم "اقلیتوں" میں شامل تھے۔


جنگ کے اس کھیل میں متحارب گروہ ایک دوسرے پر شولخیک (مٹی کے جمے ہوے تودے/دھیلے) پھنکتے تھے۔ چہرے اور سر پر مارنے کی ممانعت تھی۔ پیٹھ، ٹانگوں، اور پیٹ پر وار کرنا حلال سجمجھا جاتا تھا۔ لیکن کبھی کبھار نشانہ خطا ہو کر چہرے اور سر پر بھی لگ جاتا تھا۔ اور اگر مٹی کے ان سخت دھیلوں کے بیچ میں کوئی پتھر آجائے تو پھر خون بہنا اور جسم کے مختلف حصوں کا سوجھنا بھی معمول میں شامل تھا۔ تاہم، زیادہ اوقات محض چہرے اور کپڑے میلے ہوجاتے تھے۔


بہتی ناکوں کے ساتھ سردی کے موسم میں منہ سے بھاپ نکالتے "فوجی" جوان ایک مورچے سے دوسرے مورچے تک جاتے ہوے ایک دوسرے پر "شولخیک" کی گولہ باری کرتے تھے۔ داد شجاعت دیتے۔ اور "قربانیاں" دیتے۔ "جنگ" کا اختتام بسا اوقات اصلی، دست بدست، لڑائی کی صورت میں ہوتا تھا!


کھلونوں کی کمی تھی۔ گاوں میں گنے چنے بچوں کے پاس ربڑ یا چمڑے کے فٹبال ہوتے تھے۔ جس کا فٹبال ہوتا تھا وہ ایک طرح کا لیڈر بن جاتا تھا۔ کپتان بھی وہی ہوتا، ریفری بھی وہی، اور جج و جلاد بھی وہی۔ فٹبال کے مالک کو ناراض کرنے کا مطلب ہوسکتا تھا کھیل سے محرومی، اسلئے مالک الفٹبال کی خوش آمد کرنا اور ان کے نازو نخرے اُٹھانا مروجہ روایات میں شامل تھا۔


کھلونے اور دیگر "نوادرات" ڈھونڈے کی خاطر ہم لوگ ایک ہوٹل کے کچرے کا رخ کا بھی عموما کرتے تھے۔ وہاں دیگر مال غنیمت کے ساتھ کبھی کبھار سگریٹ کا کوئی ایک آدھ دانہ بھی مل جاتا تھا، جسے چھپ چھپا کر "پینے" کی کامیاب کوشش کے بعد ہم نہال ہوجاتے تھے۔


میں عمر رسیدہ ہوں، اور نہ ہی زیادہ وقت گزرا ہے، مگر اب روایات یکسر بدل گئے ہیں۔ اب وہ گبندے اور گردآلود معصوم کھیل قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ اب "کھیلوں" کے دیگر میدان سجائے جاتے ہیں۔

مکمل تحریر >>

Thursday, January 21, 2021

سفید فام نسل پرست کون ہیں؟

سفید فام بالادستی کے حمایتیوں کے ایک احتجاجی مظاہرے کی تصویر، بشکریہ الجزیرہ 

 آج نو منتخب صدر جو بائیڈن نے حلف برداری کے بعد اپنے خطاب میں بہت ساری باتیں کیں، لیکن ان میں سے دو نکتے انتہائی اہم ہیں۔ صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ان کی توجہ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ "ڈومیسٹک ٹیررسٹس یعنی مقامی دہشتگردوں اور وائیٹ سپریماسسٹس یعنی سفید فام نسل پرستوں پر بھی مرکوز ہوگی۔ 

ٹرمپ نواز جتھوں کی واشنگٹن پر چڑھائی کے بعد گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ان الفاظ و تراکیب کو امریکی میڈیا میں تواتر سے دہرایا جارہاہے۔  لیکن یہ الفاظ و تراکیب نامانوس بلکل بھی نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی سیکیورٹی ادارے متعدد بارمختلف رپورٹس کے ذریعے خبردار کرچکے ہیں کہ مقامی سطح پر تیار ہونے والے  دہشتگرد اور مسلح نسل پرست امریکی امن عامہ کے لئے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔ 

یاد رہے کہ امریکی آئین کے آرٹیکل 2  کے مطابق شہری  قانون کے مطابق  نہ صرف اپنے پاس ہتھیار رکھ سکتے ہیں بلکہ  اجتماعی مقاصد کے لئے عسکری گروہ بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔اسی لئے، بہت ساری ریاستوں میں مسلح ملیشیا موجود ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد سابق فوجیوں اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں میں کام کرنے والوں کی ہے، جو عسکری مقاصد کے لئے تربیت یافتہ ہیں اور دوسروں کو تربیت دے بھی سکتیہیں۔ اس طرح ہزاروں تربیت یافتہ  افراد اوردرجنوں  مسلح گروہ تقریباً سارے ریاستوں میں موجود ہیں۔ ان گروہوں میں سارے تشدد پسند نہیں ہوتے، بلکہ یہ منظم ہر کر مختلف معاملات میں ریاستی حکومتوں اور انتظامی اداروں کی مدد بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کافی سارے ماضی میں سیاسی مقاصد کے لئے پرتشدد کاروائیوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔ اور ایسے بہت سارے گروہ سابق صدر ٹرمپ کے حمایتی تھے۔ 

واشنگٹن پر چڑھائی کے بعد ان گروہوں سے تعلق رکھنے والے بہت سارے افراد گرفتار ہوچکے ہیں، لیکن ان کی تعداد ہزاروں میں ہے اور خدشہ یہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ وہ صدر جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کر سکتے ہیں، اسی لئے واشنگٹن میں حلف برداری کی تقریب کے دوران 20 ہزار سے زائد مسلح اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ 

دوسرا نکتہ جو صدر جو بائیڈن نے اپنی تقریر میں اُٹھایا وہ "سفید فاموں کی بالادستی " پر یقین رکھنے والے والوں، یعنی وائیٹ سپریمسسٹس سے متعلق تھا۔ ان گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد خود کو دیگر نسلوں، دیگر زبانوں اور تہذیبوں سے اولی اور افضل سمجھتے ہیں، اور دوسروں کو کمتر اور حقیر سمجھتے ہیں۔ ان میں بہت سارے گروہ سیاہ فاموں کی غلامی کو درست سمجھتے ہیں، اور یہ طاقت کے زور پر اپنی بالادستی امریکہ میں موجود دیگر اقوام پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ  قانونی و غیر قانونی مہاجرین کے مخالف  ہیں، لیکن سارے مہاجرین کے نہیں،بلکہ ان کے جو عموماً ایشیا، براعظم جنوبی امریکہ اور افریقہ سے آتے ہیں۔  انہیں لگتا ہے کہ مہاجرین کی بدولت امریکہ کی سماجی ہیت بدل رہی ہے، اور بھورے اور کالے، یا چینی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد ان کی جگہ لے کر ان کی طاقت اور ریاست پر گرفت کو کمزور کررہے ہیں۔ یہ امریکہ پر حکمرانی کو سفید فام/گوروں کا حق سمجھتیہیں اور انہیں اس بات پر شدید غصہ ہے کہ ماضی میں براک اوبامہ کی شکل میں ایک سیاہ فام امریکہ کا صدر بنا، اور اب ایک سیاہ فام /جنوبی ایشیائی خاتون، کمالا ہیریس، جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر بنی۔  یہ گروہ بھی سابق ٹرمپ کے حمایتی تھے۔ 

یہ  گروہ ایک لحاظ سے ماضی پرست بھی ہیں، کیونکہ یہ ایک ایسے دورکو دہرانے (واپس لانے) کا خواب دیکھتے ہیں جب سفید فاموں کی بلاشرکتِ "غیر" حکمرانی تھی، اور دوسرے ان کے زیر دست تھے۔ان میں سے بعض کے ہاتھوں میں کنفیڈریٹ جھنڈا بھی دیکھا جاسکتا ہے، جس کا علامتی مطلب یہ ہے کہ وہ  ماضی کے نسل پرست اور غلامی کو درست قرار دینے والی ریاستوں کے حامی ہیں۔ان میں سے بہت سارے گروہ جرمنی کے نازی تحریک کی بھی حمایت کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہٹلر نے یہودیوں اور دیگر نسلوں کے ساتھ جو کیا، وہ درست تھا، اور یہ کہ جرمن اور دیگر گورے دیگر نسلوں سے بالاتر ہیں۔ 

عموماً ان پرتشدد نسل پرست تحریکوں کے حمایتی دور افتادہ، دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور یہ کم تعلیمیافتہ بھی ہوتیہیں، لیکن ان کی سربراہی کرنے والوں میں اعلی تعلیم یافتہ اور مالدار افراد بھی موجود ہیں، جو انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے وقتاً فوقتاً استعمال کرتے ہیں۔ 

 یاد رہے کہ امریکی سول وار تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل غلامی کی حمایت اور مخالفت کرنے والی ریاستوں کے درمیان ہوئی تھی، جس میں غلامی کی مخالف کرنے والے اور غلامی کے خاتمے کی حمایت کرنے والے فتحیا ب ہوے تھے۔ ان کے رہنما ابراہام لنکن تھے جنہوں نے سیاہ فاموں کو آزاد کرنے اور غلامی کو ختم کرنے کا بیڑا اُٹھا یاتھا۔ 

 بعض مبصرین اور محققین صدر ٹرمپ کے معروف انتخابی  نعرے "میکنگ امیریکہ گریٹ اگین" یعنی "امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانا" کو بھی اسی تناظر سے دیکھتے ہیں۔  یعنی صدر ٹرمپ امریکہ کو ایسا ملک بنانا چاہتے تھے جہاں سفید فاموں کی مکمل بالادستی ہوگی، اورعنانِ حکومت ان کے ہاتھ میں رہے گی۔ صدر ٹرمپ کی متعدد مسلم ممالک سمیت بعض دیگر ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں، ویزا قوانین میں سختی، مہاجرت کے قوانین کو سخت ترین بنانا،  براعظم جنوبی امریکہ سے مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد روکنے کیلئے دیوار تعمیر کرنا اور دیگر بہت سارے اقدامات اُٹھانے کو بھی اسی سلسلے کی کڑیاں سمجھی جاسکتی ہیں۔ 

واشنگٹن پر چڑھائی اور سینٹ  و ایوان نمائندگان کی عمارتوں پر قبضے سے اُبھرنے والی صورتحال پیش نظر سفید فام نسل پرستوں اور مقامی دہشتگردوں (مذہبی یا غیر مذہبی) سے نمٹنے کا عندیہ دے کر صدر جوبائیڈن نے اپنے مستقبل کی ترجیحات  کا اعلان کردیا ہے۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ضمن میں عملی اقدامات کیسے اُٹھائے جاسکتے ہیں۔ 

مکمل تحریر >>

Wednesday, January 13, 2021

امریکی سیاست میں بھونچال کی کیفیت، صدر ٹرمپ کا مواخذہ ہوگا؟

 امریکی سیاست میں گزشتہ چند دنوں سے ایک بھونچال برپا ہے۔ ایوان نمائندگان پر ٹرمپ نواز جتھوں کے حملے کے بعد حالات مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی پر ہر طرف سے سب و شتم کی بارش ہورہی ہے۔ ٹرمپ کی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس کی مخالفت میں بولنے لگے ہیں۔ 

ڈیموکریٹ پارٹی اور بہت سارے میڈیا اداروں کا نائب صد مائیکل پینس سے یہ مطالبہ رہا ہے گزشتہ کچھ دنوں سے کہ وہ آئین کے تحت صدر کو چلتا کردے۔ تاہم نائب صدر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے، کیونکہ ان کے مطابق جس قانون کے تحت صدر کو نکالنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اس کا اطلاق صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب صدر جسمانی یا ذہنی امراض کو شکار ہونے کے بعد اپنے فرائض سرانجام دینے کیقابل نہ رہے۔ 

دوسری طرف ڈیموکریٹ پارٹی، جس کے امیدار جوزف بائیڈن نے صدارتی انتخاب جیت لیا ہے، کانگریس میں ایک ایسی قرار داد پیش کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے تحت صدر ٹرمپ کا مواخذہ کیا جاسکتاہے۔ ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹ پارٹی صدر ٹرمپ کو ایک مرتبہ پہلے بھی امپیچ کر چکی ہے، مگر سینٹ سے منظوری نہ ملنے کی وجہ سے ماضی میں صدر ٹرمپ
کو نہیں ہٹایا جاسکا۔ 

سپیکر نینسی پیلوسی نے آج ہی نو اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس کو صدر ٹرمپ کے مواخذے کی تیاری میں مدد دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ تیاریاں اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن اب بھی ممکن ہے کہ صدر اپنے عہدے سے نہ ہٹے۔ ویسے بھی صدر ٹرمپ کی صدارت کے آٹھ دن باقی ہیں۔ تاہم دوبارہ مواخذے کی صورت میں صدر ٹرمپ مستقبل میں صدر بننے کے لئے نااہل ہونے کے ساتھ ساتھ ان مراعات سے بھی محروم ہوجائے گا جو سابق امریکی صدور کو میسر ہوتی ہیں۔ صدر ٹرمپ ایک امیر آدمی ہے، اس لئے اسے شائد مراعات کی محرومی سے زیادہ فرق نہ پڑے، مگر اس کی علامتی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ 

اس ساری صورتحال کا پس منظر کچھ یوں کہ صدر ٹرمپ کے حمایتیوں نے، جو ملک کی مختلف ریاستوں میں دارالحکومت واشنگٹن میں اکٹھے ہو گئے تھے، ریاست میں جمہوری و سویلین بالادستی کی علامت سمجھے جانے والی عمارت پر اس وقت دھاوا بول دیا جب اندر کانگریس کے اراکین صدر بائیڈن کی جیت کی توثیق کر رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کانگریس صدر جو بائیڈن کی صدارت کی توثیق نہ کرے، کیونکہ ان کے مطابق انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ تاہم تمام پچاس ریاستوں نے صدر جو بائیڈن کے جیت کی توثیق ہے، جس کی وجہ سے ان الزامات کی اہمیت زیادہ نہیں ہیں۔

شکست تسلیم نہیں کرتے ہوے صدر ٹرمپ نے اپنے حمایتیوں کو واشنگٹن ڈی سی (دارالحکومت) میں اکٹھا ہونے کا کہا۔ اس دوران ان پر اشتعال انگیز تقریر کرنے اور مظاہرین کو ورغلانے کا الزام ہے۔ ان کی تقریر کے بعد مظاہرین کانگریس کی عمارت کی طرف روانہ ہوگئیاور حفاظتی حصار کو توڑتے ہوے عمارت میں داخل ہوگئے۔ اس دوران افرا تفری پھیل گئی، جس کے باعث منتخب اراکین کانگریس کو بھاگ کر اپنی جان بچانا پڑی۔ 

اس دھاوے کے دوران گولی چلنے سے ٹرمپ کی حمایتی خاتون جان بحق ہوگئی، جبکہ ایک پولیس والا بھی زخموں کی تاب نہ لا کر مارا گیا۔ ہنگامے کے دوران طبی وجوہات کے باعث تین دیگر افراد بھی جان بحق ہوگئے۔ 

حملے کے بعد ملک بھر میں ان حملہ آور جتھوں کو دہشتگرد قرار دے کر ان کے خلاف کاروائیاں ہورہی ہیں۔ جتھوں میں شامل درجنوں افراد کو گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کیا جارہا ہے، جبکہ دیگر افراد کی شناخت اور ان کی گرفتاریوں کا سلسلسہ پورے ملک میں جاری ہے۔ جتھے میں شامل کم از کم ایک ریاستی سطح پر منتخب رہنما نے اپنے عہدے سے استعفی دیا ہے۔

اس واقعے نے پورے امریکہ کے جمہوریت پسندوں اور ترقی پسند سوچ رکھنے والوں میں شدید مایوسی اور غصہ پھیلا دیا ہے،
اور صدر ٹرمپ کے مواخذے کے مطالبات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ 

امریکی افواج (آرمی، میرینز، ایر فورس اور نیوی) کے سربراہان نے ایک کھلیخط کے ذریعے دارالحکومت پر حملے کو غداری اور بغاوت قرار دیتے ہوے آئین کی بالادستی یقینی رکھنے کے لئے سیویلین حکومت کی ہدایت کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

 کھربوں کا کاروبارے کرنے والے اداروں نے بھی اس حملے کی مخالفت کرتے ہوے نہ صرف صدر ٹرمپ بلکہ ان کی سیاسی جماعت ریپبلکن پارٹی کی حمایت اور مالی اعانت سے ہاتھ کھینچنے کا اعلان کردیا ہے۔ جبکہ بہت سارے اداروں نے ٹرمپ کے ساتھ کاروباری معائدے ختم کردیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، مثلاً ٹوئیٹر اور فیس بُک) نے صدر ٹرمپ پر اشتعال انگیزی پھیلانے اور لوگوں کو ورغلانے کا اعلان کرتے ہوے ان کے اکاونٹس بند کر دئے ہیں۔ ان بندشوں کی افادیت اور ان کے دور رس نتائج پر ایک بحث بھی جاری ہے۔ ناقدین کا کنہا ہے کہ چند پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں میں اتنی طاقت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کسی سربراہِ مملکت پراس طرح کی پابندیاں نصب کرے۔ جرمن کی چانسلر نے بھی ٹویٹر اور فیس بک کے اس فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔ 

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ امریکہ میں شدت پسند دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروہوں میں انتہائی مقبول ہیں۔ ان گروہوں میں وائیٹ سپریمیسسٹس (سفید فاموں کی بالادستی پر یقن رکھنے والے)، فاشسٹس، نیو نازی (جرمنی کے ہٹلر کے فکری پیروکار) اور اسلام اور مسلمانوں، یہودیوں کی مخالفت کرنے والے افراد شامل ہیں۔ ان میں ایسے افراد اور گروہ بھی شامل ہیں جو نسلی بنیادوں پر خود کو دیگر تمام نسلوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے افرادکو امریکی سیکیورٹی ادارے گزشتہ کئی برسوں سے امریکی نظام حکومت و معاشرت کے لئے خطرہ قرار دیتے آئے ہیں۔ صدر ٹرمپ اپنے بیانات اور پیغامات کے ذریعے ان عناصر کی حوصلہ افزائی کرتے آئے ہیں، اور ان کے خلاف بیانات دینے سے بھی مسلسل کتراتے رہے ہیں۔

تاہم کانگریس کی عمارت پر حملے کے بعد انہوں نے بھی میڈیا کے دباو کے تحت ان حملوں کی مذمت کرتے ہوے اپنے حمایتیوں کو گھر جانے کی صلاح دی تھی۔ لیکن خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اب بھی صدر ٹرمپ کے حمایتی گڑبڑ پھیلاسکتے ہیں۔ 

20 جنوری کو صدر جو بائیڈن کی حلف بندی ہورہی ہے، جس کے لئے واشنگٹن میں سیکیورٹی انتظامات کئے جارہے ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق سی آئی اے اور ایف بی آئی سمیت متعدد سیکیورٹی اداروں نے ایک آپریشن کا آغاز کردیا ہے تاکہ واشنگٹن شہر کو حلف برداری کی تقریب کے لئے محفوظ بنایا جاسکے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے حمایتی 20 جنوری کو دوبارہ اشتعال انگیزی کرسکتے ہیں۔ 


مکمل تحریر >>

Saturday, January 09, 2021

تاریخ اور تہذیب کا مطالعہ

عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت سے احساس ہورہا ہے کہ سکول کے  دس سالوں اور کالج و یونیورسٹی کے چھہ سالوں میں جتنا سیکھا جاسکتا تھا، وہ نہیں ہوسکا۔ 

علم البشریات میں دلچسپی کے باعث عموماً انسانی تہذیبوں کے بارے میں مطالعہ کرتا ہوں، اور ہر مطالعے کے ساتھ اپنی جہالت اور سطحی علمیت کی ایک نئی جہت سے آگاہ ہو جاتا ہوں۔ کاش ایسا نہ ہوتا، اور ہمیں سکول کے زمانے سے ہی کم از کم بنیادی معلومات فراہم کی جاتی، اور ہمیں ڈنڈے کے زور پر اسباق ازبر کروانے کی بجائے سیکھنے کی صلاحیت سکھائی جاتی۔ 

ہم معاشرتی علوم کے نام پر ایسی معلومات حفظ کرتے رہے جن کا ہمارے خطے سے، ہمارے معاشرے سے،زیادہ لینا دینا نہ تھا۔ تاریخ کے نام پر ہمیں کچھ واقعات اس طرح پڑھائے جاتے رہے کہ ہم انہی کو مطلق سچ سمجھ بیٹھے اور اس عمل میں فکری آلودگی کا شکار ہوگئے۔ 

تاریخ کے نام پر ایک محدود سمجھ پیدا کی گئی، سیاسی ضروریات کے تحت، جبکہ مذہب اور تہذیب کے نام پر ہمیں میٹھے اور کڑوے انداز میں نفرت سکھائی گئی۔ 

ہم میں سیکھنے، پرکھنے، سوچنے، اور سمجھنے کی محدود صلاحیت ایک انتہائی منظم اور مربوط نظام کے تحت اس طرح سے پیدا کی جاتی تھی کہ ہم ایک دائرے میں ہی گھوم کر خود کو "عالم" و "فاضل"، "پڑھا لکھا" تصور کر لیں۔ 

گلگت بلتستان کی تاریخ انتہائی قدیم ہے۔ گلگت بلتستان اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں تاریخ ساز اور حیرت انگیز کہانیاں مدفون ہیں۔ یہاں ہڈور، داریل، تانگیر اور دیگر تمام علاقوں میں ہزاروں سالوں کی تہذیب کے مظاہر کھلی فضا تلے موجودہیں، مگر ہمیں سکولوں میں ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں پڑھایا گیا۔ شائد ہماری تاریخ اور تہذیب کو اس قابل نہ سمجھا گیا، یا پھر ہمیں علم و دانش کے قابل نہ سمجھا گیا۔ وجہ جو بھی ہو، ہم میں سے زیادہ تر جاہل رہے اپنے اور اپنے علاقے کے بارے میں۔ 

یہ علاقہ جسے ہمیں اپنا کہتے ہیں، کبھی بکٹیرین تہذیب کا حصہ رہا، کبھی سیتھین اور کبھی سوگدین۔ کبھی یہاں کاشانیوں کا زور رہا اور کبھی خُتن والوں کا۔ لیکن عین ممکن ہے کہ ہم میں سے بہت ساروں کو یہ نام بھی عجیب و غریب اور "غیر مقامی" لگیں گے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم انہی ماضی کی تہذیبوں سے کسی نہ کسی حوالے سے جُڑے ہوے ہیں، اور جنہیں ہم آج  اپنی ثقافت اور زبان کہتے ہیں، عین ممکن ہے کہ یہ انہی تہذیبوں کی دین ہے۔ 

اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں کوئی اور، گم گشتہ و گم شدہ، تہذیب کے امین آباد ہیں، جن کے بارے میں سائنس اور تاریخ کو معلوم ہی نہیں۔

فکری تجسس کی کمی کے باعث ہم یہ بات اکثر بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اجسام نئے ہیں، مگر جنہیں ہم اپنے افکار کہتے اور سمجھتے ہیں وہ بہت پرانے ہیں۔ ہماری زبانوں کی مثال لیجئے، جن کی ہزاروں سالوں کی تاریخ ہے۔ 

تاریخ کو مذہب کے نقطہ نگاہ سے دیکھ کر ماضی سے نفرت کرنا یا ماضی کے بارے میں متجسس نہ ہونا ہماری فکری استعداد کی محدودیت کا مظہر نہیں تو اور کیا ہے؟ 

آج اگر آپ گلگت بلتستان کے اوسط طلبہ و طالبات سے ان کے علاقے کی تاریخ و تہذیب اور سماج و معاشرت کے بارے میں سوال کریں گے تو آپ کے خیال میں کتنے بچوں اور نوجوانوں کو ان حقائق سے آگاہی ہوگی؟ کوئی ولاگر (ویڈیو بلاگر) اگر گلگت اور دیامر کی سڑکوں پر، یا کسی بھی ضلعے کی سڑکوں، پر نکل کر لوگوں سے ہمارے اپنے اضلاع اور دیہات، ماضی کی ریاستوں، کے بارے میں سوالات پوچھے تو کتنے لوگوں کے پاس درست معلومات ہونگیں؟

مجھے اس حوالے سے کوئی خاص خوش فہمی نہیں ہے، کیونکہ میں اس تعلیمی نظام سے گزر کر آیا ہوں۔


مکمل تحریر >>