Sunday, March 01, 2020

کتب بینی


یہودیوں کے آگے بڑھنے کی ایک بہت بڑی وجہ ان کی علم اور عقل سے دوستی ہے۔ کل اس شخص کو ٹرین سٹیشن پر ٹرین کے انتظار کے دوران ایک چھوٹی سی کتاب پڑھتے دیکھ کر اس کی تصویر لی۔

دو سالوں کے دوران میں نے انہیں انہماک کے ساتھ کتب بینی میں مصروف پایا ہے۔ بہت سارے مقدس صحیفے (تورات اور تلمود) پڑھتے ہیں، لیکن دوسری کتابیں پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد بھی روزانہ ںظر آتی ہے۔

کراچی میں لسبیلہ سے دو تلوار تک سفر کے دوران پبلک ٹرانسپورٹ میں بہت وقت گزرتا تھا۔ مگر خان کوچ، 4 کے، 20 نمبر اور 2کے میں پڑھنے کا خیال بھی ذہن سے نہیں گزر پاتا تھا۔ کنڈیکٹر، مسافروں اور ٹریفک کے شور میں کتب بینی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔

یہاں منتقل ہونے کے بعد ساتھ کوئی نہ کوئی کتاب ضرور رکھتا ہوں۔ فیس بُک اور کینڈی کرش سے فراغت کے چند لمحات پڑھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں، کبھی کبھار۔

نوجوان دوستوں اور جو عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں انہیں میرا مشورہ ہے کہ کتب بینی کی عادت اپنائیں۔ جب بھی وقت ملے کچھ نہ کچھ ضرور پڑھیں۔ انشا اللہ جلد یا بدیر فائدہ ضرور ہوگا۔

مکمل تحریر >>

Wednesday, February 26, 2020

کوہستان میں ایک بار پھر فرقہ واریت کی گونج

کوہستان میں دوران احتجاج کی گئی تقریر، اور ایک مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنانے کی دھمکی، در اصل فرقہ وارانہ فسادات کی ہوا چلا کر ایک طاقتور شخص کو بچانے کی بھونڈی کوشش ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ کوہستان کے امن پسند باسی ایسی کسی بھی سازش کو روکنے اور رد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

کوہستان میں سیاحت کی ترقی کے بڑے امکانات ہیں۔ اس طرح کی دھمکیاں دینے والے اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے خوف و ہراس پھیلا کر کوہستان کے باسیوں کو ترقی اور خوشحالی سے دور رکھنے کی سازش کر رہے ہیں۔

حکومت اور ریاست پاکستان اور حکومت گلگت بلتستان سے مطالبہ ہے کہ اس شر انگیز تقریر کا نوٹس لیا جائے اورتقریر کرنے والے کے خلاف انسداد دہشتگردی کے قوانین کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے۔

اگر ریاست اور حکومت کے نمائندے خاموش رہیں گے تو ہم اس کا یہ مطلب لیں گے کہ فرقہ وارانہ فسادات کو شہ دینے والوں پر ان کا ہاتھ ہے۔

ہمیں امید ہے کہ سی پیک منصوبے اور سیاحت کی ترقی یقینی بنانے کے لئے شاہراہ قراقرم کو آمد ورفت کے لئے محفوظ بنایا اور رکھا جائے گا۔
مکمل تحریر >>

Saturday, February 22, 2020

خواتین کا حق وراثت


ہنزہ،بشمول گوجال، سمیت گلگت بلتستان کے بہت سارے علاقوں میں اپنی بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دینے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لئے جب خاوند کا گھر تنگ ہوجاتا ہے، اور والدین کے گھر سے بھی دھتکارا جاتا ہے، تو بیٹی کے پاس اوپشنز بہت محدود ہوجاتے ہیں۔
زبانی کلامی ہمیشہ یہ کہا جاتاہے کہ باپ کا گھر بھی بیٹی کا گھر ہے اور بھائیوں کا بھی، مگر ایسا عملی طور پر کم ہی ہوتا ہے۔
جائیداد/گھر/آمدنی سے محروم بہت ساری بیٹیوں پر زمین تنگ ہوجاتی ہے تو ذہنی دباو اور پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس بے یقینی اور بے بسی کے عالم میں ہمارے معاشرے کی بہت ساری اپنی زندگی کا خاتمہ کردیتی ہیں۔
یہ ہمارے معاشرے کا ایک شرمناک پہلو ہے جس پر گفتگو کرنے سے ہم کتراتے رہے ہیں۔ ہمیں اس مسلے پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔
بیٹیوں اور بیٹوں کو اچھی تعلیم دینا والدین اور ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن صرف تعلیم سے مسلہ حل نہیں ہوتا ہے۔
خاندان کی جتنی بھی جائیداد ہو اس میں بیٹیوں کو ہر صورت حصہ ملنا چاہیے۔
آپ اس معاملے پر کیا رائے رکھتے ہیں؟
مکمل تحریر >>

Thursday, January 30, 2020

دادی کی وفات


دادی کو گزرے دس روز ہوچکے ہیں۔
موت کیا ہے؟ زندگی کا نہ ہونا۔ سانسوں کا رُک جانا۔ خاک کا خاک میں مل جانا۔ اصل میں واصل ہونا؟
چه گویم، چه دانم، که این داستان
فُزون است از حدّ و امکانِ ما
- مولانا رومی
چمنگل (گلمت) میں واقع اجتماعی قبرستان میں ان کی آخری آرامگاہ کی ایک تصویر آج دیکھی۔ برف سے سے بچانے کے لئے تازہ لحد پر ایک پلاسٹک بچھا دی گئی ہے۔ قبر کے سرہانے مٹی کے تیل سے جلنے والی ایک لالٹین رکھی گئی ہے۔ قبور کے گرد ایک خاردار تار بچھی نظر آرہی ہے، پالتو اور جنگلی جانوروں کو دور رکھنے کے لئے۔ اطراف میں برف کی موٹی تہہ سی بچھی ہے، جس کے درمیان کچھ اور عزیز ہستیاں آسودہ خاک ہیں۔ سنگ مرمر کے ٹکڑوں پر نام، ولدیت، اہم تواریخ، کچھ آیات کریمہ، اور چند دیگر عبارات بھی نظر آرہی ہیں۔
خدا رحمت کند این عاشقات پاک طینت را!
تقریباً چورانوے برس قبل (1936) میں اپنے علاقے کے معروف زمیندار رحمت شاہ کے ایک گھر ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ نام بی بی نازون رکھا گیا۔ اکلوتی بیٹی تھی۔ نازوں سے پالی گئی۔ سکندر خان (دادا) سے شادی کےبعد ان کی زندگی کے کئی سال گلگت شہر کے محلہ خومر میں گزرے۔ دادا ان دنوں ٹی اینڈ ٹی نامی سرکاری ادارے میں ملازم تھے۔
خومر میں ہی ان کی بڑی بیٹی، ہماری پھوپھی، بی بی نصرت 18 یا 19 سالوں کی عمر میں بیماری کے سبب وفات پاگئی۔ ہماری پھوپھی نصرت (مرحومہ) خومر گلگت میں مدفون ہے۔ پھوپھی کی وفات کے بعد دادی نے خاندان سمیت گلگت شہر چھوڑ دیا۔ یہ میری پیدائش سے کافی پہلے کا واقعہ ہے۔
بعد میں دادی سے کئی بار سنا کہ جوانسال بیٹی کی اچانک وفات کے بعد ان کے لئے گلگت شہر میں رہنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ گلگت سے مستقلاً گلمت منتقل ہونے کے بعد بھی دادی اپنی بڑی بیٹی کو کبھی بھول نہ پائی۔ پھوپھی کے زیر استعمال متعدد اشیا آخری وقت تک دادی کے پاس حفاظت سے موجود تھیں۔ دادی ہمیں ہمیشہ بتاتی تھی کہ ان کی بڑی بیٹی کی ناگہانی موت نے ان کو بہت توڑ دیا تھا۔ دادا جان پارکنسنز نامی بیماری کی وجہ سے طویل علالت کے بعد اپریل 1995 میں، تقریباً پچیس سال قبل، وفات پاگئے تھے۔
تمام تر مصائب سے گزرنے کے باوجود بھی دادی ہمیشہ صابر اور شاکر رہی۔ ہمیشہ اپنے اولاد کے حق میں دُعاکرتی تھی، اور اللہ کا شکر ادا کرتی تھی۔
پیدائش سے جوانی تک دادی کی محبت اور ان کی دُعائیں ملیں۔ زندگی کے ہر موڈ پر انہوں نے ہماری ہمت بڑھائی اور حوصلہ افزائی کی۔ چھٹی پر گھر جاتے وقت ہم سب کی عادت تھی کہ دادی کے لئے ان کے فیورٹ کیک علی آباد ہنزہ سے خرید کر جاتے تھے۔ اگلی بار جاتے وقت کیک خرید تو لوں گا مگر دادی نہیں ہوگی۔ ان کی ہاتھوں کو بوسہ دینے کا شرف حاصل نہیں ہوگا۔ ان کی باتیں اور دُعائیں سننے کے لئے کان ترسیں گے۔ یہ سب سوچ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ لمحات ہیں جب آپ کو احساس ہوجاتا ہےکہ یہ جُدائی مستقل ہے۔
دادی اپنے مذہب کے اصول پر سختی سے کاربند تھی۔ جب تک ان کی بینائی ساتھ دے رہی تھی وہ روزانہ عبادت کے لئے جماعتخانہ جاتی تھی۔ بینائی متاثر ہونے کے بعد وہ گھر پر ہی اپنی عبادات باقاعدگی سے انجام دیتی تھی۔ ہم خاندان والوں کے لئے وہ سراپا رحمت اور برکت تھی۔
میری دُعا ہے کہ اللہ پاک ان کی روح کو دائمی سکون نصیب فرمائے۔ آمین۔
مکمل تحریر >>