Saturday, February 22, 2020

خواتین کا حق وراثت


ہنزہ،بشمول گوجال، سمیت گلگت بلتستان کے بہت سارے علاقوں میں اپنی بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دینے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لئے جب خاوند کا گھر تنگ ہوجاتا ہے، اور والدین کے گھر سے بھی دھتکارا جاتا ہے، تو بیٹی کے پاس اوپشنز بہت محدود ہوجاتے ہیں۔
زبانی کلامی ہمیشہ یہ کہا جاتاہے کہ باپ کا گھر بھی بیٹی کا گھر ہے اور بھائیوں کا بھی، مگر ایسا عملی طور پر کم ہی ہوتا ہے۔
جائیداد/گھر/آمدنی سے محروم بہت ساری بیٹیوں پر زمین تنگ ہوجاتی ہے تو ذہنی دباو اور پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس بے یقینی اور بے بسی کے عالم میں ہمارے معاشرے کی بہت ساری اپنی زندگی کا خاتمہ کردیتی ہیں۔
یہ ہمارے معاشرے کا ایک شرمناک پہلو ہے جس پر گفتگو کرنے سے ہم کتراتے رہے ہیں۔ ہمیں اس مسلے پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔
بیٹیوں اور بیٹوں کو اچھی تعلیم دینا والدین اور ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن صرف تعلیم سے مسلہ حل نہیں ہوتا ہے۔
خاندان کی جتنی بھی جائیداد ہو اس میں بیٹیوں کو ہر صورت حصہ ملنا چاہیے۔
آپ اس معاملے پر کیا رائے رکھتے ہیں؟
مکمل تحریر >>

Thursday, January 30, 2020

دادی کی وفات


دادی کو گزرے دس روز ہوچکے ہیں۔
موت کیا ہے؟ زندگی کا نہ ہونا۔ سانسوں کا رُک جانا۔ خاک کا خاک میں مل جانا۔ اصل میں واصل ہونا؟
چه گویم، چه دانم، که این داستان
فُزون است از حدّ و امکانِ ما
- مولانا رومی
چمنگل (گلمت) میں واقع اجتماعی قبرستان میں ان کی آخری آرامگاہ کی ایک تصویر آج دیکھی۔ برف سے سے بچانے کے لئے تازہ لحد پر ایک پلاسٹک بچھا دی گئی ہے۔ قبر کے سرہانے مٹی کے تیل سے جلنے والی ایک لالٹین رکھی گئی ہے۔ قبور کے گرد ایک خاردار تار بچھی نظر آرہی ہے، پالتو اور جنگلی جانوروں کو دور رکھنے کے لئے۔ اطراف میں برف کی موٹی تہہ سی بچھی ہے، جس کے درمیان کچھ اور عزیز ہستیاں آسودہ خاک ہیں۔ سنگ مرمر کے ٹکڑوں پر نام، ولدیت، اہم تواریخ، کچھ آیات کریمہ، اور چند دیگر عبارات بھی نظر آرہی ہیں۔
خدا رحمت کند این عاشقات پاک طینت را!
تقریباً چورانوے برس قبل (1936) میں اپنے علاقے کے معروف زمیندار رحمت شاہ کے ایک گھر ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ نام بی بی نازون رکھا گیا۔ اکلوتی بیٹی تھی۔ نازوں سے پالی گئی۔ سکندر خان (دادا) سے شادی کےبعد ان کی زندگی کے کئی سال گلگت شہر کے محلہ خومر میں گزرے۔ دادا ان دنوں ٹی اینڈ ٹی نامی سرکاری ادارے میں ملازم تھے۔
خومر میں ہی ان کی بڑی بیٹی، ہماری پھوپھی، بی بی نصرت 18 یا 19 سالوں کی عمر میں بیماری کے سبب وفات پاگئی۔ ہماری پھوپھی نصرت (مرحومہ) خومر گلگت میں مدفون ہے۔ پھوپھی کی وفات کے بعد دادی نے خاندان سمیت گلگت شہر چھوڑ دیا۔ یہ میری پیدائش سے کافی پہلے کا واقعہ ہے۔
بعد میں دادی سے کئی بار سنا کہ جوانسال بیٹی کی اچانک وفات کے بعد ان کے لئے گلگت شہر میں رہنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ گلگت سے مستقلاً گلمت منتقل ہونے کے بعد بھی دادی اپنی بڑی بیٹی کو کبھی بھول نہ پائی۔ پھوپھی کے زیر استعمال متعدد اشیا آخری وقت تک دادی کے پاس حفاظت سے موجود تھیں۔ دادی ہمیں ہمیشہ بتاتی تھی کہ ان کی بڑی بیٹی کی ناگہانی موت نے ان کو بہت توڑ دیا تھا۔ دادا جان پارکنسنز نامی بیماری کی وجہ سے طویل علالت کے بعد اپریل 1995 میں، تقریباً پچیس سال قبل، وفات پاگئے تھے۔
تمام تر مصائب سے گزرنے کے باوجود بھی دادی ہمیشہ صابر اور شاکر رہی۔ ہمیشہ اپنے اولاد کے حق میں دُعاکرتی تھی، اور اللہ کا شکر ادا کرتی تھی۔
پیدائش سے جوانی تک دادی کی محبت اور ان کی دُعائیں ملیں۔ زندگی کے ہر موڈ پر انہوں نے ہماری ہمت بڑھائی اور حوصلہ افزائی کی۔ چھٹی پر گھر جاتے وقت ہم سب کی عادت تھی کہ دادی کے لئے ان کے فیورٹ کیک علی آباد ہنزہ سے خرید کر جاتے تھے۔ اگلی بار جاتے وقت کیک خرید تو لوں گا مگر دادی نہیں ہوگی۔ ان کی ہاتھوں کو بوسہ دینے کا شرف حاصل نہیں ہوگا۔ ان کی باتیں اور دُعائیں سننے کے لئے کان ترسیں گے۔ یہ سب سوچ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ لمحات ہیں جب آپ کو احساس ہوجاتا ہےکہ یہ جُدائی مستقل ہے۔
دادی اپنے مذہب کے اصول پر سختی سے کاربند تھی۔ جب تک ان کی بینائی ساتھ دے رہی تھی وہ روزانہ عبادت کے لئے جماعتخانہ جاتی تھی۔ بینائی متاثر ہونے کے بعد وہ گھر پر ہی اپنی عبادات باقاعدگی سے انجام دیتی تھی۔ ہم خاندان والوں کے لئے وہ سراپا رحمت اور برکت تھی۔
میری دُعا ہے کہ اللہ پاک ان کی روح کو دائمی سکون نصیب فرمائے۔ آمین۔
مکمل تحریر >>

Sunday, January 26, 2020

جناب کی باتیں

آج کیجے جنــــــــــــاب کی باتیں
آگہی اور عـــــــــــزاب کی باتیں

دل کی آنکھیں کھلیں، تو بھول گئے
عقل والے کتــــــــــــــاب کی باتیں

ہیچ لگتی ہیں عشق زادوں کو
استخوانی شبـــــــاب کی باتیں

ہم ہیں مخمور، ہم سے مت کیجئے
جام کی، اور شــــــــراب کی باتیں

قیس سے مل کے خوب کی ہیں کل
دشتِ دل اور ســــراب کی باتیں

آوارہ خیال – نیویارک جنوری 26، 2020

مکمل تحریر >>

Monday, January 20, 2020

دادی جان موت کی وادی میں اتر گئی


انا للہ وانا الیہ راجعون۔
رات تقریباً اڑھائی بجے میری پیاری دادی، بی بی نازون، قضائے الہی سے اپنے گھر میں اپنے خاندان کے افراد کی موجودگی میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئی۔ ان کی عمر 94 برس کے لگ بھگ تھی۔ سوگواران میں پانچ بیٹے، ایک بیٹی، اور ہم سارے پوتے پوتیوں سمیت خاندان کے تمام افراد شامل ہیں۔
دو سالوں سے وہ سماعت اور بصارت کی قوت سے محروم ہو گئی تھی۔ چند دنوں سے چلنے پھرنے سے قاصر تھی۔
ان کی ابدی رخصت کے ساتھ ہم خاندان والوں، بالخصوص پوتوں، پڑپوتوں، پوتیوں اور نواسوں، کے لئے ہمیشہ جاری و ساری دُعاوں اوربرکات کا ایک دریا بند ہوگیا ہے۔
دادی اماں کی موت کی خبر سُن کر پچھتاوے کا ایک شدید احساس اُمڈ آیاہے، کیونکہ اکتوبر 2017 کے بعد ان سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ یادوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ دادی کے منہ سے نکلنے والی دُعائیں کانوں میں گونج رہی ہیں۔
ہزاروں میل دور ایسے لمحات میں تنہائی کی شدت کا احساس ایک طوفان کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔ یہاں بھی اپنوں کے درمیان ہوں مگر دادی کے ساتھ ایک عمر گزاری تھی۔ ان لمحات میں اپنے خاندان سے دوری کا شدت سے احساس ہورہا ہے۔
دادی جان ایک نہایت ہی نفیس، صفائی پسند اور خوددار خاتون تھی۔ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ انہوں نے بہت کچھ سکھایا۔ ان کی موت سے پیدا ہونے والا خلا پُر کرنا ہمارے خاندان کے لئے ناممکن ہے۔
دادی کے ساتھ گزارے لمحات کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں، لیکن اس وقت خیالات کو یکسو کرنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ اللہ پاک ان کی روح کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
مکمل تحریر >>