Tuesday, May 01, 2018

بے وقعتی

آزادی کا ڈھونگ رچا کر 
قید کیا انسانوں کو

سڑے روایت زندہ رکھے 
قتل کیا ارمانوں کو

سنساں کر دیں شہرکی گلیاں 
سجا دیا زندانوں کو

ریت اندر سر اپنا چھپا کر 
موڑ دیا طوفانوں کو!!

عالم راندہ محفل ٹھرے 
مان ملا دربانوں کو 
مکمل تحریر >>

Monday, April 30, 2018

ایسی غیرت پر لعنت

بچی ماں کی چھاتی سے اس طرح لپٹی ہوئی ہے کہ چہرہ ماں کی طرف ہے اور سر ماں کے بائیں بازو پر ہے۔ ماں اور بچی کے سر آپس میں ملے ہوے ہیں۔ چھوٹی سی بچی ہے۔ پاوں ماں کے سینے کے قریب ہیں۔

جوانسال ماں کے چہرے پر پراسرار سی خاموشی ہے۔ آنکھیں بند ہیں۔ ساتھ ہی باپ لیٹا ہوا ہے۔ باپ کاچہرہ اپنی بیوی اور بچی کی طرف ہے۔ پشت کے بل سیدھا لیٹا ہوا ہے، یا لٹایا گیا ہے۔

کمبل، چادروں اور کپڑوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کم آمدنی والے طبقے سے تعلق ہے۔

باپ کا جسم خون میں تر ہے۔ بازو اور جسم کے دیگر مقامات پر زخموں کے نشان بھی موجود ہیں۔ بستر بھی خون سے تر ہے۔

ماں کا جسم سبز رنگ کے چادر یا کمبل ڈھکا ہوا ہے، اس لئے زیادہ خون نظر نہیں آرہا، لیکن خون کے کچھ دھبے سبر چادر کے اوپر نمایاں ہیں۔

بچی کے جسم پر خون کے نشان نظر نہیں آرہے ہیں، لیکن بچی ساکت ہے۔ پشت دیوار کی طرف، اور منہ ماں کی طرف۔

تصویر دھندلی سی ہے۔ شائد کسی پولیس والے نے کم معیار والے موبائل کیمرے سے تصویریں لی ہیں۔ جی، بہت ساری تصویریں ہیں۔ ان تصویروں کو بغور دیکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ تینوں کو سفاکیت کے ساتھ قتل کیا گیا ہے۔

یہ تصویریں بٹہ گرام کے ایک گاوں میں لی گئی ہیں۔

مقتول میاں اور بیوں کچھ عرصہ قبل پسند کی شادی ملکی قانون کے مطابق کرنے کے بعد جان بچانے کے لئے ضلع دیامر کے علاقے تھور سے فرار ہو کر اس گاوں میں روپوش ہو گئے تھے۔ ان کی زندگیوں کو خطرہ تھا۔ کیونکہ خاتون کا رشتہ پہلے سے کسی شخص کے ساتھ ہوچکا تھا، مگر وہ اس شخص کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔ ایک ہی راستہ نظر آیا کہ پسند کی شادی کر کے علاقہ چھوڑ دیا جائے۔ خطرات سے ضرور آگاہ ہونگے، لیکن پسند کی شادی کر کے وہ خوشی کے خواب دیکھ رہے تھے۔



پھر ان کے ہاں ایک پھول سی بیٹی بھی پیدا ہوئی۔ کنبہ بڑھ گیا۔ وقت گزرتا گیا، اور میاں بیوی خود کو شائد محفوظ سمجھنے لگیں۔

لیکن وہ بھول گئے تھے کہ وقت گزرنے کے ساتھ قبائلی نظام میں جکڑے افراد کا انتقام لینے کا جذبہ اور ان کی نفرت کم نہیں ہوتی۔

پھر وہی ہوا، جس کا سب کو ڈر تھا۔



کسی مخبر نے اس تین رکنی کنبے کی اس دور افتادہ گاوں میں موجودگی کی خبر غصے اور انتقام کے جذبے میں تپتے افراد تک پہنچا دی۔

درندہ صفت ظالم بدلے کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لئے پہنچ گئے۔ چوروں کی طرح گھر میں گھسے اور اس زندگی کے متلاشی، محبت کے رشتے میں بندے تین رکنی کنبے کو سفاکیت سے قتل کیا۔ ایک تصویر سے ایسا لگتا ہے کہ باپ کو تشدد کا بہانہ بھی بنایا گیا ہے، کیونکہ ہاتھ کے نزدیک بازو کا اوپری حصہ غائب ہے۔

یہ محض ایک تصویر نہیں، بلکہ ایک خونریز داستان ہے، انسانی زندگی کی بے حرمتی اور شدید حقارت اور نفرت کے اظہار کی۔

کچھ دن پس منظر میں رہنے کے بعد خبر اب سامنے آئی ہے۔ انصاف سب مانگ رہے ہیں، لیکن منصفی کی توقع کم لوگوں کو ہے۔ کیونکہ یہاں انصاف کی کال پڑی ہوئی ہے۔ سرمایہ داروں اور بااثر افرادکے ہاتھوں میں انصاف کے ادارے رکھیل بن جاتے ہیں۔

میں تصویریں دیکھ کر کانپ گیا۔ بچی کی تصویر نے تو گویا فرزانگی میں مبتلا کردیا۔ اپنے دو سالہ بیٹے کو سینے سے لگایا اور اس کے گال پر بوسہ دیا۔

ان مقتولوں کا قصور کیا تھا؟

پسند کی شادی کرنا؟ کونسا مذہب زبردستی شادی کروانے کا درس دیتا ہے؟

کورٹ میرج کرنا؟ کیا آئین پسند کی شادی کرنے والوں کو قتل کرنے کاحکم دیتا ہے؟

قابئلی نظام؟ کیا قبائلی نظام مذہب اور ملکی آئین سے مقدم اور اعلی ہے؟ کب تک غیرت کے نام بربریت کا یہ کھیل چلتا رہے گا؟

ایک سالہ بچی کا کیا قصور ہے؟

مجھے جواب نہیں ملا۔ کوئی جواب یا جواز ہو بھی نہیں سکتا۔ بس غیرت کے لبادے میں نفرت اور جہالت کا سفاک اظہار ہے۔
مکمل تحریر >>

Friday, April 27, 2018

مستقبل پہ نظر ۔۔۔ ماضی سے باخبر

ہمارا علاقہ بہت حوالوں سے انتہائی غریب تھا۔ بزرگ کہتے ہیں کہ صرف غربت کا مسلہ نہیں تھا، بلکہ لوگوں میں علم اور شعور کی بھی شدید کمی تھی۔ خوراک کی بھی کمی تھی، بالخصوص سردیوں کے دنوں میں، جب کھیت بانجھ اور درخت خشک ہو جاتے تھے۔ کچھ مخصوص گھر ہوتے تھے جن میں ہمہ وقت کھانا دستیاب ہوتا تھا۔ آگ جلانے کے لئے ماچس میسر نہیں تھی۔ لوگ آتش گیر (ایک چمٹا نما آلہ) آُٹھائے ایک گھر سے دوسرے گھر اس امید کے ساتھ جاتے تھے کہ شائد آگ جلانے کے لئے کچھ انگارے مل جائے۔ خوفناک غربت تھی۔
بچے زیادہ پیدا کئے جاتے تھے، شائد اس لئے کہ زیادہ تر مر جاتے تھے، علاج کے بغیر۔ علاج کیسے ہوتا؟ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ بچہ کیوں رو رہا ہے، کیوں دن بدن اس کی صحت گرتی جارہی ہے، کیوں غنودگی طاری ہورہی ہے۔ بس کچھ دن تڑپتے تھے، اور پھر خاک کے حوالے ہو جاتے تھے۔
جو بچے بچ جاتے تھے ان میں سے کچھ کسی نہ کسی حادثے میں کام آجاتے، کیونکہ دشوار گزار علاقہ ہے۔ دریاوں اور گلیشیائی نالوں سے گزر کر ہی ایک مقام سے دوسرے تک جایا جاسکتا تھا۔ شاہراہ قراقرم تو بہت بعد میں تعمیر ہوا۔
جو خوش نصیب بچے بج جاتے، وہ بہت مضبوط ثابت ہوتے تھے۔ عین ڈارون کے نظریہ ارتقا کے مطابق، سروائیول آف دی فٹسٹ۔ اگر یہ بچے حادثات وغیرہ سے بھی بچ جاتے تو پھر بہت طویل عمر پاتے تھے۔
میں نے بزرگوں سے سُنا ہے کہ اس معاشرے میں صفائی وغیرہ کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ بالوں میں جوویں رینگتی تھیں، جو کبھی کبھار بالوں سے نکر کر آستینوں اور اونی کپڑوں کی دسویں تہوں میں بھی چلی جاتی تھیں۔ دو چار افراد فرصت کے کچھ لمحے پاتے تو کسی جگہ بیٹھ کر باتیں کرتے تھے، اور اپنے یا دوسروں کے بالوں اور کپڑوں سے جوویں نکالتے تھے۔

یہ ماضی میں زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔ چھ سات دہائیاں ہی گزری ہونگی۔
1948 تک ہنزہ میں عام تعلیم و تدریس کا کوئی نظام نہیں تھا۔ ایک سکول تھا کریم آباد میں، جس میں صاحبِ استطاعت ہی اپنے بچوں کو پڑھا سکتے تھے۔ بچیوں کی تعلیم کا کوئی سلسلہ نہیں تھا۔
بچیوں کی سات یا آٹھ سال کی عمر میں کم و بیش اسی عمر کے لڑکوں سے شادی ہوجاتی تھی۔ میری اپنی نانی، جو ابھی حیات ہیں، کی شادی دس سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ دلہنوں کو گود میں اُٹھا کر یا پیٹھ پر بٹھا کر دلہا کے گھر لایا جاتا تھا۔ اور دلہا اوار دلہن شادی کے بعد اکٹھے کسی جوہڑ کے کنارے بیٹھ کر ناک سے بہتی رطوبت آستینوں سے پونچھتے ہوے ریت کے گھروندے بناتے تھے۔ انہیں بہت سالوں تک شادی کا مطلب ہی سمجھ نہیں آتا تھا۔ ایسی کہانیاں آپ کو ضلع ہنزہ کےہر علاقے میں گھر گھر میں سننے کو ملیں گی۔
ڈائمنڈ جوبلی سکولوں کی تعمیر کے بعد علاقے میں تعلیمی انقلاب برپا ہوا۔ جفاکش لوگ تھے۔ تعلیم سے فائدہ اُٹھایا۔ سخت محنت کی۔ امام نے حکم دیا تو دھیرے دھیرے بچیوں کو بھی پڑھانا شروع کردیا۔ چار یا پانچ دہائیوں میں علاقے کی کایا پلٹ گئی۔ جس علاقے میں پرائمری اور مڈل پاس شخص استاد بن جاتا تھا، وہاں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کی خاصی بڑی تعداد بن گئی۔ بچوں کی شرح اموات ناقابل یقین حد تک کم ہو گئی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کسی گھر میں خوارک کی کمی ہے۔ اگر کچھ گھروں میں ہے بھی تو ان کی مدد کرنے کے لئے سماجی نظام قائم ہے۔
جو بزرگ ابھی حیات ہیں، ان سے پوچھیئے تو نمناک آنکھوں کے ساتھ سجدہ شکر بجا لاتے ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی زندگیوں کے معیار کو ہزار گنا بہتر ہوتے دیکھا ہے۔
اپنے علاقے کو صنعی دنیا میں ترقی کرنے والے ممالک کی طرح بنانے کی خواہش بہت اچھی بات ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان ممالک کو ترقی کرنے اور آج کے اس مقام تک پہنچنے میں صدیاں لگی ہیں۔
ہمارے علاقوں میں جدید دور کے اپنے مسائل ہیں، اور ہم سب کو ان مسائل کے حل کے لئے کوشش کرنی چاہیے، اور آواز بھی اُٹھانی چاہیے۔ ہماری نظریں مستقبل پرمرکوز ہونی چاہیے، لیکن ہمیں اپنے ماضی سے بھی باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ معاشرے میں ترقی نہیں ہوئی ہے۔ بہت ترقی ہوئی ہے، اور بہت کم عرصے میں ہوئی ہے۔ معاشروں اور قوموں کی زندگی میں پچاس سال بہت کم ہوتے ہیں۔
ماضی سے باخبر رہیں گے تو معلوم ہوگا کہ کتنا آگے بڑھے ہیں، اوراپنی رفتار دیکھ کر مزید آگے بڑھنے کا جوش اور ولولہ بھی پیدا ہوگا۔ ورنہ صرف مایوسی اور ناکامیوں کا احساس ہوگا۔ اور ہم محض مایوسیاں ہی بانٹتے رہیں گے۔


مکمل تحریر >>

Tuesday, March 06, 2018

نیویارک کہانی ۔۔۔۔۔۔۔ کوڈ بلیو اور ساغر صدیقی



نیویارک سرد علاقہ ہے۔ یکم نومبر سے اب تک تسلسل کے ساتھ برفباری یا بارش ہورہی ہے، زیادہ تر بادل چھائے رہتے ہیں، اور کبھی کبھار سورج کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ گھروں میں درجہ حرارت سینٹرل ہیٹنگ سسٹم کے تحت گرم پانی کی مدد سے بہت اچھا رہتا ہے، لیکن باہر درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کبھی کبھار منفی بیس درجے تک بھی نیچےگر جاتا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت اور ریاستی اداروں کو بے گھر اور غریبوں کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔
 فکر ہمارے وہاں بھی یقیناً لاحق ہوتی ہوگی، لیکن وہاں صرف فکری ہوتی ہے، یہاں سردیوں سے متاثرہ بے گھر افراد کو بچانے کے لئے ایک نظام  بھی موجود ہے۔ 

سردی حد سے زیادہ ہوجائے تو ریاست نیویارک کی پولیس اور انتظامیہ اعلان کرتے ہیں کہ "کوڈ بلیو" نافذ العمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بے گھر افراد کسی بھی ریاستی مرکز میں داخل ہوکر رات گزار سکتے ہیں، تاکہ سردی کی وجہ سے ان کی موت واقع نہ ہو۔ ایسے افراد کی مدد کرنے کرنے کے لئے یہاں بہت سارے ادارے ریاستی اور غیر سرکاری سطح پر کام کررہے ہیں، مثلاً شیلٹر (دارالامان سمجھ لیجئے)، ڈراپ ان سینٹر (جن میں آپ کسی بھی وقت ہنگامی صورتحال میں داخل ہوسکتے ہیں) اور سیف ہیونز (محفوظ پناہ گاہیں)۔

ان اداروں میں بنیادی فرق داخلے کے طریقہ کار میں ہے۔ عام حالات میں  بعض  اداروں میں آپ بآسانی داخل ہوکر سہولیات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، جبکہ بعض میں داخل ہونے کے لئے کچھ شرائط پر پورا اترنا لازم ہوتا ہے۔ کوڈ بلیو کے نفاذ کے دوران یہ تمام شرائط معطل کردئیے جاتے ہیں، اور کوئی بھی مصیبت زدہ شخص ان اداروں میں داخل ہو کر سردی سے پناہ حاصل کرسکتا ہے۔ کوڈ بلیو کے دوران کسی بھی متاثرہ شخص سے کوئی بھی کاغذات نہیں مانگے جاتے ہیں۔ یہ خالص انسانی جان بچانے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔ عام شہری بھی ۹۱۱ پر کال کر کے بے گھر اور ضرورتمندوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں، اور حکومتی کارندے آکر انہیں عارضی پناہ گاہوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ 

اس موثر نظام کی موجودگی سے مجھے تو یہ پیغام ملا کہ یہاں انسانی زندگی کی بہت قدر ہے۔

اور ہاں، کوڈ بلیو کے اعلان کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ساغر صدیقی کی تصویر گھوم جاتی ہے۔


جی وہی تصویر جو سوشل میڈیا پر کبھی کبھار احباب شیر کرتے ہیں۔ 

کوڈ بلیو کے اعلان کے ساتھ ہی میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ اگر ہمارے وہاں بھی کوڈ بلیو کا نظام ہوتا تو شائد ساغر صدیقی اس رات سردی میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر نہ مرتا۔ 

اس درجہ عشق موجب رسوائی بن گیا 
میں آپ اپنے گھر کا تماشائی بن گیا 
دیر و حرم کی راہ سے دل بچ گیا مگر 
تیری گلی کے موڑ پہ سودائی بن گیا 

مکمل تحریر >>