Friday, April 27, 2018

مستقبل پہ نظر ۔۔۔ ماضی سے باخبر

ہمارا علاقہ بہت حوالوں سے انتہائی غریب تھا۔ بزرگ کہتے ہیں کہ صرف غربت کا مسلہ نہیں تھا، بلکہ لوگوں میں علم اور شعور کی بھی شدید کمی تھی۔ خوراک کی بھی کمی تھی، بالخصوص سردیوں کے دنوں میں، جب کھیت بانجھ اور درخت خشک ہو جاتے تھے۔ کچھ مخصوص گھر ہوتے تھے جن میں ہمہ وقت کھانا دستیاب ہوتا تھا۔ آگ جلانے کے لئے ماچس میسر نہیں تھی۔ لوگ آتش گیر (ایک چمٹا نما آلہ) آُٹھائے ایک گھر سے دوسرے گھر اس امید کے ساتھ جاتے تھے کہ شائد آگ جلانے کے لئے کچھ انگارے مل جائے۔ خوفناک غربت تھی۔
بچے زیادہ پیدا کئے جاتے تھے، شائد اس لئے کہ زیادہ تر مر جاتے تھے، علاج کے بغیر۔ علاج کیسے ہوتا؟ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ بچہ کیوں رو رہا ہے، کیوں دن بدن اس کی صحت گرتی جارہی ہے، کیوں غنودگی طاری ہورہی ہے۔ بس کچھ دن تڑپتے تھے، اور پھر خاک کے حوالے ہو جاتے تھے۔
جو بچے بچ جاتے تھے ان میں سے کچھ کسی نہ کسی حادثے میں کام آجاتے، کیونکہ دشوار گزار علاقہ ہے۔ دریاوں اور گلیشیائی نالوں سے گزر کر ہی ایک مقام سے دوسرے تک جایا جاسکتا تھا۔ شاہراہ قراقرم تو بہت بعد میں تعمیر ہوا۔
جو خوش نصیب بچے بج جاتے، وہ بہت مضبوط ثابت ہوتے تھے۔ عین ڈارون کے نظریہ ارتقا کے مطابق، سروائیول آف دی فٹسٹ۔ اگر یہ بچے حادثات وغیرہ سے بھی بچ جاتے تو پھر بہت طویل عمر پاتے تھے۔
میں نے بزرگوں سے سُنا ہے کہ اس معاشرے میں صفائی وغیرہ کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ بالوں میں جوویں رینگتی تھیں، جو کبھی کبھار بالوں سے نکر کر آستینوں اور اونی کپڑوں کی دسویں تہوں میں بھی چلی جاتی تھیں۔ دو چار افراد فرصت کے کچھ لمحے پاتے تو کسی جگہ بیٹھ کر باتیں کرتے تھے، اور اپنے یا دوسروں کے بالوں اور کپڑوں سے جوویں نکالتے تھے۔

یہ ماضی میں زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔ چھ سات دہائیاں ہی گزری ہونگی۔
1948 تک ہنزہ میں عام تعلیم و تدریس کا کوئی نظام نہیں تھا۔ ایک سکول تھا کریم آباد میں، جس میں صاحبِ استطاعت ہی اپنے بچوں کو پڑھا سکتے تھے۔ بچیوں کی تعلیم کا کوئی سلسلہ نہیں تھا۔
بچیوں کی سات یا آٹھ سال کی عمر میں کم و بیش اسی عمر کے لڑکوں سے شادی ہوجاتی تھی۔ میری اپنی نانی، جو ابھی حیات ہیں، کی شادی دس سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ دلہنوں کو گود میں اُٹھا کر یا پیٹھ پر بٹھا کر دلہا کے گھر لایا جاتا تھا۔ اور دلہا اوار دلہن شادی کے بعد اکٹھے کسی جوہڑ کے کنارے بیٹھ کر ناک سے بہتی رطوبت آستینوں سے پونچھتے ہوے ریت کے گھروندے بناتے تھے۔ انہیں بہت سالوں تک شادی کا مطلب ہی سمجھ نہیں آتا تھا۔ ایسی کہانیاں آپ کو ضلع ہنزہ کےہر علاقے میں گھر گھر میں سننے کو ملیں گی۔
ڈائمنڈ جوبلی سکولوں کی تعمیر کے بعد علاقے میں تعلیمی انقلاب برپا ہوا۔ جفاکش لوگ تھے۔ تعلیم سے فائدہ اُٹھایا۔ سخت محنت کی۔ امام نے حکم دیا تو دھیرے دھیرے بچیوں کو بھی پڑھانا شروع کردیا۔ چار یا پانچ دہائیوں میں علاقے کی کایا پلٹ گئی۔ جس علاقے میں پرائمری اور مڈل پاس شخص استاد بن جاتا تھا، وہاں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کی خاصی بڑی تعداد بن گئی۔ بچوں کی شرح اموات ناقابل یقین حد تک کم ہو گئی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کسی گھر میں خوارک کی کمی ہے۔ اگر کچھ گھروں میں ہے بھی تو ان کی مدد کرنے کے لئے سماجی نظام قائم ہے۔
جو بزرگ ابھی حیات ہیں، ان سے پوچھیئے تو نمناک آنکھوں کے ساتھ سجدہ شکر بجا لاتے ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی زندگیوں کے معیار کو ہزار گنا بہتر ہوتے دیکھا ہے۔
اپنے علاقے کو صنعی دنیا میں ترقی کرنے والے ممالک کی طرح بنانے کی خواہش بہت اچھی بات ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان ممالک کو ترقی کرنے اور آج کے اس مقام تک پہنچنے میں صدیاں لگی ہیں۔
ہمارے علاقوں میں جدید دور کے اپنے مسائل ہیں، اور ہم سب کو ان مسائل کے حل کے لئے کوشش کرنی چاہیے، اور آواز بھی اُٹھانی چاہیے۔ ہماری نظریں مستقبل پرمرکوز ہونی چاہیے، لیکن ہمیں اپنے ماضی سے بھی باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ معاشرے میں ترقی نہیں ہوئی ہے۔ بہت ترقی ہوئی ہے، اور بہت کم عرصے میں ہوئی ہے۔ معاشروں اور قوموں کی زندگی میں پچاس سال بہت کم ہوتے ہیں۔
ماضی سے باخبر رہیں گے تو معلوم ہوگا کہ کتنا آگے بڑھے ہیں، اوراپنی رفتار دیکھ کر مزید آگے بڑھنے کا جوش اور ولولہ بھی پیدا ہوگا۔ ورنہ صرف مایوسی اور ناکامیوں کا احساس ہوگا۔ اور ہم محض مایوسیاں ہی بانٹتے رہیں گے۔


مکمل تحریر >>

Tuesday, March 06, 2018

نیویارک کہانی ۔۔۔۔۔۔۔ کوڈ بلیو اور ساغر صدیقی



نیویارک سرد علاقہ ہے۔ یکم نومبر سے اب تک تسلسل کے ساتھ برفباری یا بارش ہورہی ہے، زیادہ تر بادل چھائے رہتے ہیں، اور کبھی کبھار سورج کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ گھروں میں درجہ حرارت سینٹرل ہیٹنگ سسٹم کے تحت گرم پانی کی مدد سے بہت اچھا رہتا ہے، لیکن باہر درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کبھی کبھار منفی بیس درجے تک بھی نیچےگر جاتا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت اور ریاستی اداروں کو بے گھر اور غریبوں کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔
 فکر ہمارے وہاں بھی یقیناً لاحق ہوتی ہوگی، لیکن وہاں صرف فکری ہوتی ہے، یہاں سردیوں سے متاثرہ بے گھر افراد کو بچانے کے لئے ایک نظام  بھی موجود ہے۔ 

سردی حد سے زیادہ ہوجائے تو ریاست نیویارک کی پولیس اور انتظامیہ اعلان کرتے ہیں کہ "کوڈ بلیو" نافذ العمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بے گھر افراد کسی بھی ریاستی مرکز میں داخل ہوکر رات گزار سکتے ہیں، تاکہ سردی کی وجہ سے ان کی موت واقع نہ ہو۔ ایسے افراد کی مدد کرنے کرنے کے لئے یہاں بہت سارے ادارے ریاستی اور غیر سرکاری سطح پر کام کررہے ہیں، مثلاً شیلٹر (دارالامان سمجھ لیجئے)، ڈراپ ان سینٹر (جن میں آپ کسی بھی وقت ہنگامی صورتحال میں داخل ہوسکتے ہیں) اور سیف ہیونز (محفوظ پناہ گاہیں)۔

ان اداروں میں بنیادی فرق داخلے کے طریقہ کار میں ہے۔ عام حالات میں  بعض  اداروں میں آپ بآسانی داخل ہوکر سہولیات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، جبکہ بعض میں داخل ہونے کے لئے کچھ شرائط پر پورا اترنا لازم ہوتا ہے۔ کوڈ بلیو کے نفاذ کے دوران یہ تمام شرائط معطل کردئیے جاتے ہیں، اور کوئی بھی مصیبت زدہ شخص ان اداروں میں داخل ہو کر سردی سے پناہ حاصل کرسکتا ہے۔ کوڈ بلیو کے دوران کسی بھی متاثرہ شخص سے کوئی بھی کاغذات نہیں مانگے جاتے ہیں۔ یہ خالص انسانی جان بچانے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔ عام شہری بھی ۹۱۱ پر کال کر کے بے گھر اور ضرورتمندوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں، اور حکومتی کارندے آکر انہیں عارضی پناہ گاہوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ 

اس موثر نظام کی موجودگی سے مجھے تو یہ پیغام ملا کہ یہاں انسانی زندگی کی بہت قدر ہے۔

اور ہاں، کوڈ بلیو کے اعلان کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ساغر صدیقی کی تصویر گھوم جاتی ہے۔


جی وہی تصویر جو سوشل میڈیا پر کبھی کبھار احباب شیر کرتے ہیں۔ 

کوڈ بلیو کے اعلان کے ساتھ ہی میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ اگر ہمارے وہاں بھی کوڈ بلیو کا نظام ہوتا تو شائد ساغر صدیقی اس رات سردی میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر نہ مرتا۔ 

اس درجہ عشق موجب رسوائی بن گیا 
میں آپ اپنے گھر کا تماشائی بن گیا 
دیر و حرم کی راہ سے دل بچ گیا مگر 
تیری گلی کے موڑ پہ سودائی بن گیا 

مکمل تحریر >>

Friday, March 02, 2018

نیو یارک کہانی ۔۔۔۔۔۔۔۔ سب وے میں کچھ مشاہدات

سب وے نیویارک کی جان ہے۔

سب وے دراصل زیرِ زمین ریلوے کا ایک پیچیدہ اور وسیع نیٹ ورک ہے۔ لندن میں "ٹیوب" کہلاتا ہے۔ ہر منٹ لاکھوں افراد سب وے کے ذریعے شہر کے ایک حصے سے دوسرے تک سفر کرتے ہیں۔ بہت سارے روٹس ہیں۔

میری بیوی روزانہ تین گھنٹے دفتر آنے جانے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ میرا تو دماغ چکرا جاتا ہے سوچ کر بھی۔ تین گھنٹے میں تو بندہ گلمت سے بور ہو کر گلگت پہنچ جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ راستے میں عطا آباد جھیل، ٹنلز، مرکزی ہنزہ کی خوبصورتی، راکا پوشی اور نگر کے شاندار نظارے اور قدرت کے لاکھوں شاہکار دل موہنے کو تیار کھڑے ہیں۔ اور یہاں تین گھنٹے زیرِ زمین سفر، ایک ڈبے کے اندر۔

روٹس کو یاد رکھنا، اور ایک ٹرین سے دوسرے تک منتقل ہونا بھی ایک عذاب سے کم نہیں ہے۔ اچھے خاصے "تجربہ کار" افراد بھی بعض اوقات دھوکہ کھا جاتے ہیں ۔۔۔۔ اور "جانا تھا جاپان، پہنچ گئے چین ۔۔۔۔ سمجھ گئے ناں" والا معاملہ بن جاتا ہے۔ شکر ہے گوگل میپ کا جو راہنمائی کے لئے موجود ہے، لیکن تمام تر سہولیات کے باوجود بعض اوقات بندہ "گُم" جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں سب وے کے ذریعے سفر کر رہا تھا۔ ایک سٹیشن پر بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس ایک شخص ٹرین پر چڑھ گیا۔ پریشان الحال لگ رہا تھا۔ بلند آواز میں گفتگو کا آغاز کیا۔ "کین آئی ہیو یوور اٹینشن پلیز"۔

منظر مانوس سا تھا۔ مجھے ایک لمحے کے لئے لگا کہ میں "خان کوچ" میں بیٹھا ہوں۔ کراچی شہر ہے، اور ذہن کے نہاں خانوں میں آواز گونجی، "حضرات، چند منٹون کے لئے آپ کی توجہ درکار ہے۔ "

لمحات ایک جیسے تھے، لیکن منظر میں فرق تھا۔ کہاں خان کوچ کی رنگین چھت اور کہاں سب وے ٹرین کی اشتہارات سے مزین دیوار۔ کہاں خان کوچ کی کھلی کھڑکیاں اور دروازے، اور ان سے اندر امڈتی بدبو، اور کہاں سب وے کی صاف ستھری ہوا اور روشن ڈبے۔ وہاں پان تھوکتے یا پھر ماوا کھاتے سرخ دانتوں کا دیدار اور یہاں گوری چٹی اور کالی ، ہر دو، چمڑیوں کی بہار۔ (نوٹ: آپس کی بات۔ یہ جملہ ایسے ہی زیبِ داستان بڑھانے کے لئے تحریر کی ہے۔ سردی اتنی ہے کہ سب گرم اور "مکمل" کپڑے پہنتے ہیں۔ مفلرز، لمبی جوتیاں، لمبے کوٹ، رنگ رنگ کی ٹوپیاں، اور سر تا پا پردہ۔ چمڑی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ گرمیوں کی بات یقیناً الگ ہوگی، ایسا میں نے سُنا ہے۔)

وہاں کراچی میں بس کے دروازے کے قریب کھڑا کنڈکٹر دروازے کی ایسے بجاتا تھا کہ پورا بس ہل جاتا تھا اور یہاں کونے میں ایک جوڑا بوس و کنار میں مصروف ہے۔ ہاں، البتہ ٹرین کی آواز بھی بڑی زوردار ہوتی ہے۔ منظر مانوس سا تھا۔ لیکن تفصیلات الگ الگ تھیں۔

میں خیال سینیما میں لگے کراچی کی فلم سے نکل کر، بلکہ بھاگ کر، نیویارک پہنچا، اور آواز لگانے والے شخص کی طرف توجہ دینے لگا۔ اس کی نظر بھی مجھ پر پڑی، کیونکہ وہ بھانپ گیا تھا کہ میرے علاوہ کوئی اور اس ڈبے میں اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ میں بھی جھانپ سا گیا۔ اور نظریں پھیر لیں۔

بلند سی آواز آئی، "میں سابق فوجی (ویٹرن) ہوں۔ عراق اور افغانستان میں لڑ چُکا ہوں۔ ملک کی خدمت کی ہے۔ آج کل مالی پریشانی کا شکار ہوں۔ اگر کوئی ایک ڈالر دے سکتا ہے تو بڑی مہربانی ہوگی۔"

مجھے حیرت سی ہوئی۔ سابق فوجی ٹرین میں بھیک مانگ رہا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی۔ ہمارے وہاں تو سابق فوجی حاضر سروس فوجیوں سے بھی زیادہ رعب دار ہوتے ہیں۔۔۔۔ بہت سارے صوبیداروں اور حوالداروں کے چہرے خیال سینیما کی سکرین پر جلوہ گر ہو گئے ۔۔۔۔

"میں سابق فوجی (ویٹرن) ہوں۔ عراق اور افغانستان میں لڑ چُکا ہوں۔ ملک کی خدمت کی ہے۔ آج کل مالی پریشانی کا شکار ہوں۔ اگر کوئی ایک ڈالر دے سکتا ہے تو بڑی مہربانی ہوگی۔"

تقریباً مشینی انداز میں اس شخص نے وہی جملے ادا کئے اور ڈبے کے بیچ میں سے لوگوں کے درمیان سے گزرتے ہوے دوسرے دروازے تک پہنچ گیا۔

کسی نے سر اُٹھا کر نہیں دیکھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیال سینیما میں نورجہان کا نغمہ "اے پتر ہٹاں تے نئیں ۔۔۔۔۔۔۔ " چلنے لگا۔

سٹیشن آگیا، اور بندہ اتر گیا۔

یہاں بے گھر لوگوں کی بڑی تعداد ہے، جن میں سے بہت سارے سابق فوجی ہیں۔ مطالعے سے معلوم ہوا کہ فوج میں چند سال گزارنے کے بعد ایسے افراد کافی سارا پیسہ کما لیتے ہیں، لیکن بہت سارے جمع شدہ پونجی جلد ہی اُڑا دیتے ہیں۔ کچھ سال گزارنے والوں کو پینشن نہیں ملتا، اس لئے جلد ہی سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ ان کی فلاح و بہبود کے لئے ادارے بھی ہیں، اور بہت ساری نوکریوں میں ان کو ترجیح بھی دی جاتی ہے، لیکن بہت سارے دوبارہ کام کرنے کی بجائے سب وے کا رُخ اختیار کرتے ہیں۔

پھر یونہی ایک خیال آیا کہ اگر امریکہ میں داخلی امن و امان کی صورتحال پاکستان جیسی ہوتی تو شائد سابق فوجی سیکیورٹی کمپنیاں بنا کر یا ان میں کام کر کے برسرِ روزگار رہ سکتے تھے، لیکن یہاں پولیس کا نظام کافی بہتر ہے، اس لئے ہر بڑا دکاندار اپنی سیکیورٹی کے باوردی گارڈز نہیں رکھتا۔

سیکیورٹی کمپنیاں بھی ہیں، لیکن شائد ان میں بھی سارے سابق فوجیوں کی کھپت ممکن نہیں ہوتی ہے۔

ایک اور خیال یہ آیا کہ اگر یہ شخص "شہید" ہوجاتا تو شائد اعزاز کے ساتھ دفنایا جاتا اور خاندان کی کفالت کا بھی کوئی نہ کوئی بندوبست ہو ہی جاتا، لیکن یہ "غازی" بن کر خوار ہورہا ہے۔

یا پھر یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ کوئی شعبدہ باز ہو اور لوگوں کی توجہ اور ہمدردی حاصل کرنے کے لئے سابق فوجی کا سوانگ رچا رہا ہو۔

سُنا ہے کہ ایسے ڈھونگی بھی بہت سارے موجود ہیں شہر میں ۔۔۔۔ ہمدردی سنبھال کر رکھنی پڑے گی۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, February 28, 2018

ہاتھ سے نکل جائیں گی ۔۔۔۔

یہ ایک منفی سوچ کا حامل طبقہ ہے جو اپنے تئیں معاشرے کا خیرخواہ ہے، لیکن ہر دور میں مخالفت میں ڈٹا رہا ہے۔ اس طبقے کا تعلق کسی فرقے، علاقے یا ذات اور قبیلے سے نہیں، بلکہ یہ ایک منفی طرزِ فکر کے حامل افراد کا مجموعہ ہے، جو کسی بھی سماجی گروہ میں موجود ہوسکتا ہے۔

ہمارے علاقے میں اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد پہلے (ستر اور اسی کی دہائی میں) کہتے تھےکہ بچیوں کو مت پڑھاو۔ خراب ہوجائیں گی۔ اب بہت کم گھرانے ایسے ہیں جو اپنی بیٹیوں کو تعلیم دینا معیوب سمجھتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں تو کوئی بھی گھر ایسا نہیں جہاں لڑکیاں سکول یا کالج نہیں جاتی ہو!

پھر کہنے لگیں، بچیوں کو نوکری کرنے کی اجازت مت دو، خراب ہوجائیں گی۔ ہمارے گاوں میں اسی کی دہائی میں کچھ ہونہار خواتین نے نرسنگ کے شعبے کو اپنایا تو سرگوشیوں میں اور کبھی کھلے عام شکوک و شبہات کا اظہار شروع ہوگیا۔ اب حالت یہ ہے کہ سب کوششیں کررہے ہیں کہ کسی طرح ہماری بیٹی بھی ڈاکٹر یا پھر نرس بن جائے!

پھر کہنے لگیں، بچیوں کی شادی ان کی مرضی سے مت کرو۔ خراب ہوجائیں گی۔ دھیرے دھیرے یہ بھی بات سمجھ میں آگئی کہ اپنی مرضی سے شادی کرنے میں کوئی اخلاقی یا مذہبی قدغن نہیں ہے۔ آج زیادہ تر کہتے ہیں کہ بیٹی کی مرضی ہے، جہاں شادی کرے۔ نفع نقصان کی ذمہ دار خود ہے۔

پھر کہنے لگیں، بچیوں اور عورتوں کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع مت دو، خراب ہوجائیں گی۔ دھیرے دھیرے مان جائیں گے کہ خیالات کے اظہار کا حق ہر انسان کے پاس ہے۔ آپ ان سے اتفاق بے شک نہ کریں، لیکن زبان بندی کا زمانہ گزر گیا ہے۔

پھر کہنے لگیں بچیوں کو کھیل کود اور تفریح میں حصہ مت لینے دو، خراب ہوجائیں گی۔ آج بہت ساروں کی دبی دبی یا کھلی خواہش ہے کہ ان کی بیٹی بھی ثمینہ بیگ، ملائکہ، ڈیانا بن جائے!

یہ طبقہ ہمیشہ سے ہی ترقی اور تبدیلی میں منفیت دیکھتا اور اسے اجاگر کرتا آرہا ہے۔ یہ معاشرے کے مخالفین نہیں ہیں، سماجی ترقی کے بھی قائل ہیں، لیکن خواتین سے متعلق ان کا نقطہ نظر مختلف اور منفی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ ان کی مخالفت کے باوجود گلگت بلتستان کی بیٹیاں ڈاکٹرز، نرسز، کوہ پیما، پائلیٹس، سیاستدان، دانشور، عسکری اور دیگر مسلح اداروں کی آفیسرز، اندرون و بیرون ملک قوی و عالمی اداروں کی اعلی منتظمین، عالمی شہرت یافتہ اتھلیٹس، معیشت کے ماہرین، زباندان، معلمہ، سافٹ وئیر انجینئرز، سماجی سائنسز کی ماہرین، آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی یونیوورسٹیوں میں پڑھ کر سائسدان اور سائنس کی استانیاں بن چکی ہیں ۔۔۔۔۔ اور ابھی ان کے آگے آسماں اور بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔

مخالفت کی اس روش کے پیچھے یوں تو ایک انجانا سا خوف ہے۔ ہاں، البتہ اس خوف کا کم از کم ایک پہلو یہ کہ  انہیں ڈر ہے کہ "خواتین ہاتھ سے نکل جائیںگی" ۔ اس جملے میں بہت سارا فلسفہ اور تاریخ پوشیدہ ہے۔

مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان مخالفین کو عورتوں کے ہاتھ سے نکلنے کے ڈر سے زیادہ ہے صنفی عدم توازن پر مبنی سماجی نظام پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑنے کا ڈر ہے۔

سماجی تبدیلی کبھی کبھار خوفزدہ بھی کرسکتی ہے۔ لیکن اگر خوف کو رد کر کے اُمید کا دامن تھاما جائے اور ترقی کو سماجی اقدار سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جائے تو تبدیلی کے اس اٹل سفر میں درپیش مشکلات بہت حد تک کم ہوسکتی ہیں۔
مکمل تحریر >>