Sunday, January 28, 2018

کل رات ننگا پربت پر انسانی بہادری، قربانی اور بے بسی کی ایک اور تاریخ رقم ہو گئی

رات بھر دنیا کی نگاہیں ننگا پربت پر مرکوز تھیں، جہاں بہادری، قربانی اور انسانی بے بسی کی ایک اور تاریخ رقم ہو گئی۔

پولینڈ اور فرانس سے تعلق رکھنے والے دو کوہ پیما "قاتل پہاڑ" کے نام سے مشہور خوبصورت مگر انتہائی دشوار گزار ننگا پربت پر پھنسے ہوے تھے۔ بیس کیمپ اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ روابط منقطع ہو چکے تھے۔

فرانس سے تعلق رکھنے والی خاتون کوہ پیما الزبتھ اکیلے نیچے کی طرف سفر کر رہی تھی، کیونکہ اوپر جانا ناممکن تھا۔ الزبتھ کا ساتھی کوہ پیما تومش میکسیوویچ تاحد نظر پھیلے انتہائی سفید اور دھوپ میں شدت سے چمکنے والے برف کی وجہ سے اندھا پن کا شکار ہو چکا تھا، اور اس کے پاوں اور ہاتھ بھی سرما زدگی کی وجہ سے سُن ہو چکے تھے۔ چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ اسی لئے خاتون نے اکیلے ہی نیچے جانے کی کوشش شروع کر دی تاکہ اپنے ساتھی کی زندگی بچانے کے لئے کمک حاصل کر سکے۔ خاتون کی اپنی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ ان کے پاوں کی انگلیاں بھی سرمازدگی کا شکار ہوچکی تھیں۔

ادھر پاک فوج اور دیگر حکومتی ادارے تلاش اور بچاو کا کام کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن موسم ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ پورا دن کوششیں کرنے کے بعد چار کوہ پیماوں، جو کے ٹو سر کرنے کی خواہش لئے بلتستان میں موجود تھے، کو شدید موسمی حالات اور خطرات کے باوجود فوجی ہیلی کاپٹر میں ننگا پربت کے دامن میں کامیابی سے اتار دیا گیا۔

یہ کوہ پیما کے ٹو بیس کیمپ سے رضاکارانہ طور پر روانہ ہوے تھے، اور ان کا ایک ہی مقصد تھا، ننگا پربت پر پھنسے ساتھی کوہ پیماوں کو بچانا۔تلاش اور بچاو کی اس خطرناک مہم میں شامل ہونا ان کا فرض نہیں تھا، لیکن انہوں نے اسے اپنا فرض بنایا، اور اس خطرناک مہم میں شامل ہو کر اپنی جان جوکھوں میں ڈال گئے۔ ایک انسان کی زندگی بچانا، پوری انسانیت کی زندگی بچانے کے متراف جو ٹہرا۔

فوجی ہیلی کاپٹر میں کے ٹو بیس کیمپ سے ننگا پربت کے دامن میں 4900 میٹر کی بلندی پر اترنے کے بعد دو بہادر کوہ پیماوں، ڈینس اٰروبکو اور ایڈم بئیےلیکی نے رات کی تاریکی میں ننگا پربت پر چڑھنا شروع کردیا۔

رات کے اندھیرے میں جب درجہ حرارت منفی 40 کے لگ بھگ ہو، قاتل پہاڑ، جسے سر کرنے کی کوشش میں درجنوں کوہ پیما جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، پر عمودی رُخ چڑھنا انتہائی پُر خطر کام ہے، لیکن یہ دو بہادر کوہ پیما اپنے ساتھیوں کی جان بچانا چاہتے تھے، اس لئے خطرات کو خاطر میں لائے بغیر اوپر جارہے تھے۔

پانچ گھنٹے کی مسلسل اور غیر معمولی جدوجہد کے بعد دونوں انتہائی تیز رفتاری سے خونی چٹانوں، متحرک برف، سرکتے پتھروں اور سینکڑوں فٹ گہرے کھائیوں سے خود کو بچاتے بارہ سو میٹر کی بلندی عبور کر گئے۔ 6100 میٹر کی بلندی پر ان کی نیچے جانے کی کوشش کرنے والی خاتون کوہ پیما الزبتھ سے ملاقات ہوگئی۔

اوپر چڑھنے والے دونوں کوہ پیما مصنوعی سیاروں کی مدد سے پوری دنیا کے ساتھ منسلک تھے، اور ان کی نقل و حرکت پر سب کی ںظریں تھی۔ یوٹیوب اور متعدد دیگر ویب سائٹس پر براہ راست ان کے سفر کی لائیو سٹریمنگ کچھ اس انداز میں ہورہی تھی کہ ہر چند میٹر کے بعد لوگوں کو معلوم ہو جاتا تھا کہ اب وہ کہاں پہنچ گئے ہیں۔

خاتون کوہ پیما سے ملنے کے ڈینس اور ایڈم نے اپنے ساتھیوں کو پیغام دیا کہ اب مزید اوپر چڑھنا خطرات سے خالی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے سود بھی ہے، کیونکہ اونچائی پر پھنسے ہوے کوہ پیما تومش، جو ننگا پربت کے عشق میں مبتلا تھا، اور اسے چھ بار سردیوں میں سر کرنے کی کوشش کرچکا تھا، (یہ تصویر ان کی ہے)، کو بچانا ناممکن ہے۔

مزید اوپر نہ چڑھنے کا فیصلہ اصولی ضرور تھا، مگر معمولی نہیں۔ اعصاب شکن۔ کیونکہ، خاتون کوہ پیما جب نیچے اترنے لگی تھی، تو اس وقت تومش زندہ تھا۔

اوپر نہ جانے کا مطلب تھا تومش کو منہ کے موت میں چھوڑ دینا، اگر وہ زندہ ہے تو۔

ان دونوں کوہ پیماوں نے پوری دنیا سے اپنی بہادری اور جفاکشی کے عوض مختلف سوشل میڈیا فورمز پر زبردست دادوتحسین وصول کی۔

کچھ افراد نے مزید اوپر جا کر تومش کی حالت دیکھنے، اور شائد اسے بچانے، کی بجائے نیچے واپس اترنے کے فیصلے پر شدید تنقید بھی کی۔ انہیں لگا کہ تومش کو موت کے منہ میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور اب شائد ان کی موت یقینی ہے۔

یہ ایک انتہائی سخت فیصلہ ہے، لیکن اس فیصلے سے انسان کی بے بسی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ کبھی کبھار چاہتے ہوے بھی اچھا کام کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔

میری تو اب بھی دعا ہے کہ اللہ کرے کوئی معجزہ ہو اور تومش بچ جائے۔

اور اگر تومش نہ بچ پایا، تو کم از یہ اطمنان ضرور ہے کہ وہ ایک ایسے پہاڑ پر منوں برف تلے دفن ہے، جس سے اُسے جنون کی حد تک محبت تھی، اورجس کو سر کرنا اس کی شدید خواہش تھی۔ 

مکمل تحریر >>

Sunday, January 07, 2018

نیویارک کہانی

رہائش گاہ کے ساتھ ہی یہودیوں کی عبادت گاہ ہے۔ عبادت گاہ کے اندر دینی سکول بھی ہے، جبکہ مختلف تہواروں اور شادی بیاہ وغیرہ کے لئے بھی اسی عمارت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ تقریباً ہر روز عباد ت گاہ کے باہر درجن بھر لمبی زرد بسوں میں سینکڑوں بچوں اور بچیوں کو لایا جاتا ہے، جو غالباً دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بچے اور بچیاں عموماً کالے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں۔ بچے کالے رنگ کی "نمازی" ٹوپی پہنتے ہیں۔ لڑکے سر کو اوپر سے تو گنجا کرتے ہیں، لیکن بالوں کی دو لمبی چوٹیاں کانوں کے آس پاس جھولتی نظر آتی ہیں۔ مرد اور عورت لمبی کالی عبائیں پہنتے ہیں، جبکہ یہودی مرد مختلف اشکال کی ٹوپیاں بھی پہنتے ہیں۔


میں نے نیویارک پہنچنے کے بعد پہلی بار یہودی مذہب کے پیروکاروں کو دیکھا ہے، اور بعض سے دکانوں میں ہلکی پھلکی کاروباری ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ خاموش اور اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے محلے میں زیادہ تر افراد یہودی ہیں، جبکہ خاصی بڑی تعداد میں چینی بھی آباد ہیں۔ گورے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔


بلڈنگ میں زیادہ تر "مہاجر" مقیم ہیں۔ مہاجروں میں روسی بھی ہیں، چینی بھی، بنگلہ دیشی بھی، ہندوستانی بھی اور پاکستانی بھی۔

چھوٹے بڑے کاروبار پر چینی اور یہودی چھائے ہوے ہیں۔ نزدیک ہی ایک دکان پاکستانی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کی ہے، جبکہ کچھ فاصلے پر پاکستانی اور بھارتی کھانوں کا ایک ریستوران بھی موجود ہے، جہاں سے تندور کی روٹی جیسی کوئی چیز میسر ہے۔

ایک ہی سڑک پر ایک کلیسا (گرجا گھر)، بدھ مت کے پیروکاروں کا ایک معبد اور یہودی عبادت گاہ موجود ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ایک مسجد بھی یہاں ہوا کرتا تھا، جو اب تین یا چار کلومیٹر دور واقع ہے۔

گھر سے چند سو قدموں کے فاصلے پر میمونائیڈس میڈیکل سنٹر نامی ہسپتال واقع ہے۔ ہسپتال سو سال قبل ایک ڈسپنسری کی شکل میں شروع کیا گیا تھا، اور بنانے میں کلیدی کردار یہودی خواتین و حضرات کا تھا۔  صاف ستھرا اور بڑا ہسپتال ہے۔ میرا بیٹا جس سکول میں کھیلنے کودنے اور سیکھنے جاتا ہے اس کا بانی بھی کوئی یہودی صاحب ہیں۔ مطلب یہ کہ ہر شعبہ زندگی میں اہم ، مثبت اور موثر کردار ادا کررہے ہیں، اور اپنی ثقافتی شناخت پر بھی قائم ہیں۔
علاقہ صاف ستھرا ہے۔ سڑکیں کشادہ ہیں۔ پانی ، گیس اور بجلی کا کوئی مسلہ نہیں۔ دو مہینوں کے دوران ایک سیکنڈ کے لئے بھی بجلی بند نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان میں آدھی زندگی گزارنے والے کے لئے یہ تجربہ حیرت ناک ہے!!

گزشتہ دنوں ایک اپارٹمنٹ میں موجود چولہے میں آگ بھڑکنے سے دھواں بھر گیا۔ کچھ ہی منٹوں میں فائر بریگیڈ کی آٹھ گاڑیاں اور ایمبولینس پہنچ گئے۔ آتشزدگی کا واقعہ بڑا نہیں تھا، لیکن نپٹنے کی تیاری مکمل تھی۔

انٹرنیٹ خاصی تیز ہے۔ چند سیکنڈز میں سینکڑوں ایم بیز کی فائلیں ڈاونلوڈ ہوجاتی ہیں۔

دھیرے دھیرے علاقے اور نظامِ حکومت کے ساتھ شناسائی بڑھتی جارہی ہے۔ گھومنے پھرنے کا فی الحال زیادہ موقع نہیں، کیونکہ سردی شدت کی ہے ۔
مکمل تحریر >>

Monday, October 09, 2017

Navigating Linguistic Diversity in Gilgit-Baltistan


Though small in terms of population, the lingual diversity of Gilgit-Baltistan is amazingly rich. This is evident from the fact that the region is home to nine languages – Shina, Balti, Burushaski, Wakhi, Khowar, Domaki, Gojri, Uighur and Pushtu –. In terms of language family, these languages belong to different groups. Burushaski’s origin is still a mystery for researchers. Shina and Khowar belong to Dardic languages group. The former is spoken in Gilgit-Baltistan, Kohistan in KP and Kargil and Darass in Indian Occupied Kashmir, whereas the former is spoken in parts of Ghizer Districts and Chitral in KP.  . Balti is a Tibetan language, which is spoken in Baltistan, Ladakh and Kargil area. Wakhi is a Pamiri, Indo-Iranian, language, spoken in parts of Afghanistan, Tajikistan, Chitral, Gilgit and China’s Tashkorgan region. Domaki is at the verge of extinction, owing to social prejudices against the musician tribes (Doms) that spoke it. Speakers of Uighur, a Turkic language, settled in Gilgit-Baltistan in the 1940s, fleeing after the Chinese communist revolution. Thus, the linguistic diversity makes the region a mosaic of languages.


Now, the fate of these languages, and by extension the identity of the people who speak them, hangs in the balance, because no serious efforts have been made to develop and promote them. Being oral languages, the languages in Gilgit-Baltistan do not have standard alphabets. Some books have been published in these languages by using various alphabets, but there is no consensus among the activists and writers, poets, about the scripts to be followed.

In this context, holding of the Gilgit-Baltistan region’s first ever literature festival offers a ray of hope. Led by the government officials, the literary festival brought together language experts, poets, writers and activists, enabling them to share ideas and proposals for preserving and modernizing the languages.  Establishment of the languages research academy, as promised by the Chief Minister of Gilgit-Baltistan during the literary festival, is a welcome step forward. It is imperative to make the proposed academy an independent entity of research. It should be empowered enough to carry out scholarly research, avoid stereotypes and prejudices, treat all languages as equal, instead of preferring one over the others based on the number of speakers. The Chief Minister also said that the proposed research academy will initially be tasked to develop scripts (alphabets) for five of these languages.


As explained above, the languages spoken in Gilgit-Baltistan are not limited to the region. The political frontiers of today are relatively recent phenomenon, which separate speakers of same language and ethnic group. While developing alphabets for these languages, the decision makers and language experts will have to be cognisant of the social context and role of language in society and identity. They should study the evolution of the languages, and also keep in view the impact that adoption of a particular set of alphabets will have on members of the language groups settled across the borders of GB. This is important because the language groups live in different political contexts.

The Wakhi speakers, for instance, are living in Afghanistan, Tajikistan and China. In Afghanistan, the Wakhi scholars and students use Arabic alphabets. In Tajikistan, the Wakhi speakers use Cyclic (Russian) alphabets. Not much is known about the Wakhi speakers’ alphabet preferences in China. In Pakistan, Roman and Arabic alphabets are in use. Two books of poetry have recently been published using Roman alphabets, which have been developed by a number of foreign scholars, including Dr. Stablin Kamansky and Dr. Grün Berg. A book compiled by Dr. Sabine Felmy, “The Voice of the Nightingale”, also used Roman alphabets to document the famous Wakhi epic, Bulbulik.

Similarly, the Balti language’s Yegi script was developed in the 8th century. With the arrival of Islam, the Arabic alphabets were adopted by different scholars by the 17thcentury. Currently, some efforts by young researchers and language activists are underway to reintroduce what they call the indigenous “Yige” script of the Balti language. India has also developed a modified version of the Devnagri script to write Balti.

Burushaski is written by using Arabic alphabets for the last five or six decades. Alwaiz Ghulamuddin’s translation of the Holy Quran in Burushaski, and Dr. Naseerudin Hunzai’s Burushaski devotional literature, both written using Arabic alphabets, are highly significant works.

Various primers of Shina, using different versions of Arabic alphabets, have also been published by literary icons like Muhammad Amin Zia and Abdul Khaliq Taj, Doctor Namus, and linguist Shakeel Ahmed Shakeel. Several books, radio dramas and profiles have been written using the alphabets developed, proposed, by the scholars.

Khowar is a relative developed language in terms of literary works, mainly because of the efforts undertaken by scholars, poets and writers, in Chitral. Their experiences can greatly benefit the planners.

It is apparent from the facts stated above that the lingual heritage of Gilgit-
Baltistan is pluralistic. Therefore, it is important to avoid monolithic approach to linguistic diversity.


The proposed language academy should rise above sectarian, regional and ethnic biases and allow the scholars and experts of all the languages to come forth with their rational and futuristic plans and proposals.
مکمل تحریر >>

Sunday, October 08, 2017

Diwona-e-Raqs - My Wakhi Poetry


Diwona wor raqseṣ̌ cart 
pʉzʉv dem kʉčae wairon
Nasibi ṣ̌ʉw γ̌iretk kifčen,
Piδingi ti dilet ẓ̌ʉ jon

Heti sek tow vitk kʉx̌tay γ̌aṣ̌
Ṣ̌akeṣ̌ x̌and har kaset nokas
Ẓ̌ʉ rʉhi xʉš de ti xʉšiγ̌,
De xalgem wuz aqal  hairon

γ̌afč armoniṣ̌t wosen de dil
Har eynoteṣ̌ nay got manzil
Ti hijri ʉmrer ẓ̌ʉ tʉṣ̌a
Xʉšiγ̌ tin ẓ̌ʉ dard-e-darmon

Wafoyi rasm nast hʉsnen
Ske hʉsneṣ̌ wost nazar kux̌ten
Chizreṣ̌ nay kart yem re pʉzʉv
Ce γ̌afč noyex̌ki yem inson

Wiri mʉškil safar mar khak
Quwati vehk, č̣eẓ̌mi rehk
Qʉwmet č̣awmeṣ̌ tre har γ̌na
Kʉṣ̌ʉydep maẓ̌ hazor Asmon


مکمل تحریر >>