Sunday, September 10, 2017

زبان، تاریخ اور تہذیب

یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ پاکستان بھر، اور ہمسایہ ملک ہندوستان ، میں بہت سارے علاقے ایسے ہیں جن کے نام میں لفظ "کوٹ" مشترک ہے۔ اسی خیال کے تحت چند نام جو فوراً ذہن میں آئے فیس بُک پر پوسٹ کردئیے اور دوستوں کی رائے معلوم کی۔ کیونکہ ناموں میں یہ مماثلت محض اتفاقی بات تو نہیں ہوسکتی۔ اس دور میں ان علاقوں میں آباد لوگوں کے درمیان ظاہری مماثلتیں کم ہیں، لیکن لفظ کوٹ کا مشترک ہونا کسی قدیم رابطے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ 
کچھ نام درج ذیل ہیں۔ اس پوسٹ میں بہت سارے نام فیس بُک دوستوں کی طرف سے عطا کردہ ہیں۔ 

آگائی کوٹ (بلتت ہنزہ کا پرانا نام)
چغتائی کوٹ (گنش ہنزہ کا پرانا نام)
سونی کوٹ (گلگت)
یرکوٹ، خومر (گلگت)
گوری کوٹ (استور)
رائیکوٹ (دیامر)
حیران کوٹ (چترال)
جالکوٹ (کوہستان)
سیئو کوٹ (کوہستان)
بالا کوٹ (ہزارہ)
تھاکوٹ (ہزارہ)
سخاکوٹ (مالاکنڈ)
سیال کوٹ ( پنجاب)
پٹھان کوٹ (پنجاب، ہندوستان)
راجکوٹ (گجرات، ہندوستان)
جلکوٹ (مہاراشٹر، ہندوستان)
رنی کوٹ (سندھ)
عمر کوٹ (سندھ)
شہداد کوٹ (سندھ)
کوٹ ادو (سندھ)
لفظ "کوٹ" شمالی سرحدی علاقہ ضلع ہنزہ سے لے کر جنوب میں واقع سندھ تک مستعمل ہے یا رہا ہے۔ اس لفظ کا اتنے تواتر سے استعمال شائد یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ علاقے تاریخی اور تمدنی لحاط سے آپس میں جُڑے ہوے ہیں۔
میرے خیال میں یہ لفظ دریائے سندھ کی تہذیب سے تعلق رکھنے والے افراد کی کسی مشترکہ زبان سے نکلا ہوا ہے۔

دوستوں نے فوراً اپنی قیمتی آرا دینی شروع کردیں، اور یہ آشکار ہوگیا کہ لفظ کوٹ شینا (گلگت بلتستان کی بڑی زبان) اور پشتو میں موجود ہے۔ بعض احباب نے کہا کہ کوٹ سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جسے مختلف دیگر زبانوں نے بھی مستعمل رکھا ہے۔ 

یہ ایک تحقیق طلب امر ہے۔ 
مکمل تحریر >>

Thursday, August 31, 2017

مشکلات، مواقع اور ممکنات

قدرت کے کھیل نرالے ہیں۔ 

سات سال قبل ہم اہلیان گوجال اس جھیل کو کوستے تھے، اسے اپنی ترقی کی راہ میں رُکاوٹ سمجھتے تھے، اور تقریباً ہر روز مطالبہ کرتے تھے کہ اس جھیل سے پانی کا اخراج ممکن بنایا جائے۔ اس مطالبے کی پاداش میں ہمارے بہت سارے جوانوں کو قیدو بند کی صعوبتوں اور مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 

اب حالت یہ ہے کہ یہ جھیل، جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے، ضلع ہنزہ کی معیشت کے لئے بہت بڑی اہمیت اختیار کرگئی ہے، کیونکہ نہ صرف اسے دیکھنے لاکھوں سیاح آتے ہیں، بلکہ اب اس سے 32 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے وفاقی مںصوبے پر بھی کام ہورہا ہے۔ 

متبادل سڑک اور سرنگوں کی تعمیر سے نہ صرف آمدورفت کی مشکلات ختم ہوئی ہیں، بلکہ اب پہلے کی نسبت محفوظ اور آرام دہ سفری سہولت لوگوں کو میسر ہے۔


قدرت سخت ترین امتحان لیتی ہے، لیکن اسی دوران مواقع بھی پیدا کرتی ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ان مشکلات کو ہم کس طرح مواقع میں بدلتے ہیں۔

مکمل تحریر >>

Monday, August 28, 2017

گلگت بلتستان میں ای ہیلتھ کا مستقبل




مواصلاتی نظام کی ترقی نے انسان کو زمان اور مکان کی قید سے بہت حد تک آزاد کردیا ہے۔ پیغام رسانی کا کام آسان ہوگیاہے۔ تحریر، تصویر اور ویڈیوز کی شکل میں براہ راست دنیا کے کسی بھی کونے تک پیغامات بآسانی ، تقریباً مفت، پہنچائے جاسکتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی یہ نعمت گلگت بلتستان جیسے دور افتادہ علاقے میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں اور گھروں پر طلبہ و طالبات کے پاس انٹرنیٹ پر کی شکل میں علم کا ایک خزانہ موجود ہے۔ اس خزانے سے کیسے مستفید ہونا چاہیے، اس کا انحصار ہماری ترجیحات پر ہے۔ 
پیغام رسانی کی ٹیکنالوجی میں حاصل کردہ جدت نے زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے۔ آن لائن کاروبار ہمارے پسماندہ علاقے میں ایک مضبوط حقیقت بن چکا ہے، جبکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آن لائن کام کر کے گھر بیٹھے روزگار کمارہے ہیں۔ ثقافت پر بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی، بالخصوص انٹرنیٹ کے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ نوجوان موبائل فون کی مدد سے مقامی زبانوں میں گانے بنا کر انٹرنیٹ پر شیر کرتے ہیں تو چند ہی دنوں میں یہ مواد لاکھوں افراد تک پہنچ جاتا ہے۔ ماضی میں لاکھوں افراد تک پہنچنا آسان کام نہیں تھا۔ انٹرنیٹ نے ان لکھی مقامی زبانوں کے تحفظ کی امید بھی پیدا کی ہے۔ 

زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح انٹرنیٹ نے صحت عامہ کے نظام کو بھی مثبت انداز میں متاثر کیا ہے۔عالمی سطح پر ماہرین انٹرنیٹ کے ذریعے نہ صرف مریضوں کو ہدایات دیتے ہیں، بلکہ جدید ترین ٹیکنالوجی نے یہ بھی ممکن بنایا ہے کہ کسی دوسرے براعظم میں بیٹھ کر معاونین کی مدد سے براہِ راست مریضوں کا علاج کیا جاسکے۔ یہ افسانوی بات نہیں، بلکہ دور حاضر کی اہم حقیقت ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان وسائل کا صحت عامہ کے مسائل حل کرنے کے لئے استعمال کے نظام کو ای ہیلتھ کا نام دیا گیا ہے۔ 

اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارہ برائے صحت نے ای ہیلتھ کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے، کہ ای ہیلتھ وہ نظام ہے جس کے تحت انفارمیشن ٹیکنالوجی استعمال کر کے مریضوں کا معائنہ کیا جاسکتا ہے، امراض کی تشخیص کی جاسکتی ہے، یاپھر مریضوں کے کوائف وغیرہ منظم انداز میں ذخیرہ کئے جاسکیں ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہسپتالوں کے انتظام و انصرام اور صحت عامہ کے نظام کی بہتری کے لئے استعمال بھی ای ہیلتھ کا حصہ ہے۔

ای ہیلتھ کے لئے ایم ہیلتھ (موبائل وائرلیس ہیلتھ)، ٹیلی میڈیسن ، ٹیلی ہیلتھ اور اس طرح کے دیگر الفاظ و تراکیب بھی مستعمل ہیں۔ ٹیلی میڈیسن کی اصطلاح پہلی بار ۱۹۷۰ میں استعمال کی گئی۔ اس وقت ٹیلی میڈیسن کو ’’ فاصلاتی علاج‘‘ کے معنوں میں استعمال کیا گیا۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۶۰ کے عشرے میں بھی ٹیلی ویژن کو ماہرین نے طبّی مشاورت کے لئے استعمال کیا تھا۔ 

۲۰۱۶ میں مشہو ر امریکی جریدہ وال سٹریٹ جرنل میں شائع شدہ ایک مضمون میں لکھاگیا کہ کئی سالوں کی امید اور انتظار کے بعد بالآخر ٹیلی میڈیسن نے اپنی مخفی صلاحیت کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ اس مضمون میں میلینڈا بیک نامی خاتون نے لکھا کہ تیز تر انٹرنیٹ ، سمارٹ فونز اور بہتر انشورنس پالیسیز کی بدولت اب صحت کی خدمات فراہم کرنے والے ادارے ٹیلی میڈیسن پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں، اور لوگوں کے مسائل بھی حل ہورہے ہیں۔ انہوں نے مزید لکھا کہ اب ڈاکٹرز ای میل، ویب کیم اور سمارٹ فونز کے ذریعے براہِ راست گھر بیٹھے ڈاکٹرز سے مشورے کر رہے ہیں، اور اپنی صحت بہتر بنانے کے لئے ان کی رائے لے رہے ہیں۔ انہی آلات کی مدد سے مریضوں کے لئے اپنے بلڈ پریشر ، دل کی رفتار اوردیگر اہم علامات سے متعلق اعداد وشمار براہِ راست ڈاکٹرز تک پہنچانا آسان ہوگیا ہے۔ 

پاکستان میں ای ہیلتھ کے فروغ کے لئے کامسیٹس نامی ادارے نے کافی حد تک بنیادی کام کیا ہے، لیکن اب بھی ای ہیلتھ کی سہولیات مملکتِ عزیز میں بہت محدود سطح پر میسر ہیں۔ تاہم، یہ خوش آئند امر ہے کہ اب انٹرنیٹ، جو ای ہیلتھ کے نظام کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، ملک کے کونے کونے تک پھیل چکا ہے، اور اس سہولت کے مزید پھیلاو کا وسیع امکان موجود ہے۔ سی پیک منصوبے کے تحت چین سے پاکستان تک آپٹک فائبر بچھانے کے بعد انٹرنیٹ کی رفتار اور معیار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔ 

گلگت بلتستان اور چترال میں قائم اپنے متعدد مراکز میں آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان نے ۲۰۱۴ سے ای ہیلتھ کی مختلف سہولت متعارف کر رکھی ہیں، جس کی مدد سے لوگوں کو اپنے ہی شہر یا قصبے میں بیٹھ کر آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی ، آغا خان میڈیکل سنٹر گلگت اور آغا خان میڈیکل سینٹر بونی (چترال) میں بیٹھے ماہر ڈاکٹرز کی خدمات میسر ہوتی ہیں ۔ فی الوقت جلِدی اور نفسیاتی امراض، اور انٹرنل میڈیسن میں شامل مختلف امراض میں مبتلا افراد گلگت بلتستان اور چترال کے مختلف علاقوں (چٹورکھنڈ (اشکومن)، سنگل (پونیال) ، سوست (گوجال)، علی آباد (ہنزہ)، گرم چشمہ (چترال) میں قائم ہیلتھ سینٹرز جا کر اس سہولت سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

ای ہیلتھ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مریضوں کو علاج کے لئے اسلام آباد یا کراچی تک جائے بغیر اعلی معیار کی خدمات میسر ہوتی ہیں۔ اس سے نہ صرف وقت کی بچت ہوتی ہے، بلکہ اخراجات میں بھی خاطر خواہ کمی ہوتی ہے۔تاہم یہ ایک تشویش ناک امر ہے کہ علاقے میں ای ہیلتھ کی محدود سہولت موجود ہونے کے باوجود بھی لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس سے استفادہ نہیں کررہی ہے۔ 
آغاخان ہیلتھ سروس پاکستان کے لئے کام کرنے والے ڈاکٹر رشید احمد (ایم بی بی ایس، ایم پی ایچ) نے اس رُجحان کی وجوہات کا مطالعہ کیا ہے۔ اُن کے مطابق، لوگوں کی بڑی تعداد ابھی ان سہولیات کی موجودگی سے بے خبر ہیں۔ جن کو سہولیات کی موجودگی کے بارے میں معلوم ہے، ان میں سے بھی بہت سارے روایتی طرزِ فکر کے زیرِ اثر ڈاکٹروں سے بالمشافہ ملنے اور آمنے سامنے بیٹھ کر مشاورت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ڈاکٹر رشید کی تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے نفسیاتی علاج کو ہمارے علاقے میں اب بھی معیوب یا بدنامی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنے والے افراد علاج کے لئے روایتی نظامِ صحت یا ای ہیلتھ کے استعمال سے ہچکچاتے ہیں۔ ماضی میں انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے بھی بہت سارے افراد نے ای ہیلتھ کی آسان اور سستی سہولت استعمال کرنے کو ترجیح نہیں دی ہے۔


یہ معروضی اور زمینی حقائق اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن ای ہیلتھ کے مستقبل کی طرف اُمید کے ساتھ دیکھنے کی بھی ہت ساری وجوہات ہیں، جن میں سے بعض کا ذکر اس مضمون میں کیا گیا ہے۔ 

چونکہ گلگت بلتستان اور چترال میں ڈاکٹرز کی کمی ہے، اس لئے ہر ہسپتال یا مرکزِ صحت میں ڈاکٹرز کی تعیناتی ممکن نہیں ہے۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے ای ہیلتھ بہت حد تک ممدومعاون ثابت ہوسکتا ہے۔ گلگت شہر میں بیٹھا ڈاکٹر دور افتادہ علاقے میں تعینات نرسز کی مدد سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے متعدد امراض اور مشکلات میں مبتلا مریضوں کا علاج کرسکتا ہے۔ ای ہیلتھ امراض کی تشخیص اور مشاورت کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے پھیلاو کو روکنے اور مریضوں کی معلومات کو موثر انداز میں انتظام کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 

اسی طرح ، مریضوں کی طبّی رپورٹس کا مطالعہ اور ان کی بروقت اور محفوظ ترسیل بھی ای ہیلتھ کے نظام کی وجہ سے آسان ہوگیا ہے، جس سے مریضوں کا وقت بچ جاتا ہے، اور رپورٹس دیکھ کر معالج انہیں ادویات وغیرہ آن لائن ہی تجویز کرسکتے ہیں۔ 

یہ دیکھا گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں بالخصوص مریضوں کی تفصیلات اب بھی کاغذوں اور رجسٹرز میں رکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے طبّی تحقیق 
کا کام بُری طرح متاثر ہوتا۔ اعدادوشمار اور مریضوں کے دیگر کوائف کاغذوں اور رجسٹرز میں ہی پڑے رہتے ہیں۔ موثر تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔ ای ہیلتھ کا نظام وسیع سطح پر متعارف کر کے میڈیکل ریکارڈ کیپپنگ کا مسلہ مکمل طور پر حل کیا جاسکتا ہے۔


یہ کہنا غلط ہوگا کہ ای ہیلتھ کی مدد سے ہر مسلہ حل کیا جاسکے گا، کیونکہ فاصلاتی ٹیکنالوجی اپنی تمام تر افادیت کے باوجود انسانی قربت کے فرق کو مٹانے سے قاصر ہے۔ لیکن بعض بیماریوں، مثلاً نفسیاتی مسائل، جن کی گلگت بلتستان میں بہتات ہے، کے لئے معیاری مشاورت آن لائن فراہم کی جاسکتی ہے۔ 
ای ہیلتھ سے موثر انداز میں استفادہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انٹرنیٹ کی سپیڈ بہتر بنائی جائے۔ ای ہیلتھ کی افادیت اور اس کی موثریت کے بارے میں عوام الناس کو آگاہ کر کے رُجحان سازی پر توجہ دی جائے، اور حکومتی سطح پر وسائل فراہم کر کے سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں کو ای ہیلتھ کے نظام کے تحت مربوط کیا جائے۔


محکمہ صحت گلگت بلتستان، آغا خان ہیلتھ سروس اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر ای ہیلتھ کی سہولیات موثر انداز میں عوامی خدمات کے لئے استعمال کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک واضح اور مربوط حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ مریضوں کوآسانی کے ساتھ سہولیات میسر کئے جاسکیں۔ 

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا دن دُوگنی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہے ، آج ہم جن سہولیات او رممکنات کا گمان بھی نہیں کرسکتے ہیں، کچھ سالوں میں وہ کسی نہ کسی طرح سے ہمارے سامنے موجود ہوں گے۔ ان وسائل سے استفادہ کرنا اور عوام الناس کی زندگیوں کا معیار بہتر بنانا حکومت اور ہم سب کی ذمہ داری ہے۔  


یہ مضمون روزنامہ بادشمال میں اتوار (26 اگست 2017) کو شائع ہوا۔ 


مکمل تحریر >>

Thursday, August 03, 2017

پہلی کرن - مائیکروفکشن

چٹان کے کنارے پر بیٹھے وہ سورج کی پہلی کرن کا انتظار کر رہے تھے۔

ہر طرف اندھیرا تھا۔ وہ دونوں بمشکل یہاں تک پہنچے تھے۔


ابھی سُرج کی پہلی کرن زمین پر نہیں پڑی تھی۔ آسمان دھیرے دھیرے روشن ہورہاتھا۔


ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے وہ ہزاروں فٹ نیچے وادی کے اندھیروں کو دیکھ رہے تھے۔
رات ہی ان کی شادی ہوئی تھی۔

ہنی مون کے لئے دونوں گاوں کے اوپر پہاڑ کے دامن میں واقع جھونپڑی میں گھر والوں کے روکنے کے باوجود آئے تھے۔


رات ساری باتوں میں کٹ گئی۔


باتوں کے دوران ہی اُنہیں خیال آیا کہ کیوں نہ ازدواجی زندگی کا پہلا بوسہ چٹان کنارے سورج کی پہلی کرن کی آمد کے ساتھ دیا جائے!!


لڑکی عروسی کپڑوں میں ملبوس چٹان کے کنارے پر کھڑی ایک ہیولے کی طرح نظر آرہی تھی۔


لڑکا بیٹھے اُسے انہماک اور اشتیاق سے تک رہا تھا۔


اچانک تڑاخ کی آوز آئی۔


کچھ پتھرگرے۔


سرسراہٹ ہوئی۔


خوفناک چیخ سے سارا اندھیرا جاگ اُٹھا۔


لڑکی پھسل کر چٹان سے نیچے گر گئی تھی۔


چند ثانیوں کے بعد ہلکی سی دھب کی آواز آئی۔

اور پھر خاموشی کا پہرا شروع ہوا۔

لڑکا حیرت اور دہشت کے مارے کچھ سوچ سکا ، نہ ہی اس کے منہ سے کوئی آواز نکلی۔ 
مہبوت ہوگیا تھا۔ 

اپنی جگہ سے اُٹھا۔
قدم ساتھ نہیں دے رہے تھے۔


دھیرے دھیرے چٹان کے کنارے تک آیا۔

نیچے اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔

ایک نظر آسمان کی طرف اُٹھائی۔ کچھ دیکھ نہ سکا۔ آنسو اُمڈ آئے تھے۔

بغیر توقف کئے اُس نے چھلانگ لگادی۔

تیزی سے نیچے گرتےہوے اُس نے ایک ثانیے کے لئے چوٹی پر نمودار ہونے والی سورج کی پہلی کرن دیکھ لی۔


پھر اُس کی آنکھیں بند ہوئیں۔ 

ہمیشہ کے لئے۔
مکمل تحریر >>